Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

یوکرینی اور امریکی صدور کا رابطہ، ’سفارتکاری اور ڈیٹرینس کی اہمیت پر زور‘

سنیچر کو صدر جو بائیڈن اور روسی صدر کا ٹیلی فونک رابطہ ہوا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
روس کے یوکرین پر ممکنہ حملے کے تناظر میں امریکی صدر جو بائیڈن اور یوکرین کے صدر ولودومیر زیلینسکی نے سفارتکاری اور کسی بھی جارحانہ ردعمل سے گریز کرنے پر زور دیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ دونوں رہنماؤں نے اتوار کو پچاس منٹ طویل ٹیلی فونک گفتگو میں روس کے یوکرین کی سرحد پر اضافی فوجیں تعینات کرنے کے جواب میں سفارتکاری اور ڈیٹرینس کی اہمیت پر زور دیا ہے۔
جو بائیڈن نے واضح کیا کہ ’روس کی جانب سے یوکرین کے خلاف مزید جارحانہ کارروائیوں کے ردعمل میں امریکہ اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ مل کر فیصلہ کن جواب دے گا۔‘
اس سے قبل امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کے ترجمان جان کربی نے کہا تھا کہ امریکہ اور روس کے صدور کے درمیان ہونے والے رابطے سے پر امید ہونے کی کوئی وجہ نہیں ملتی۔
انہوں نے صدر جو بائیڈن اور صدر ولاویمیر پیوتن کے درمیان سنیچر کو ہونے والے ٹیلی فونک گفتگو پر مایوس کن تجزیہ دیا ہے۔
جان کربی نے اتوار کو امریکی چینل فاکس نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دونوں صدور کے درمیان ہونے والی طویل گفتگو ’یقیناً اس بات کی علامت نہیں ہے کہ چیزیں درست سمت کی جانب چل رہی ہیں۔ یقیناً یہ اس بات کی بھی علامت نہیں ہے کہ مسٹر پیوٹن کا کشیدگی کم کرنے کا ارادہ ہے۔ اور یہ اس کی بھی علامت نہیں ہے کہ وہ خود کو سفارتی راستہ اپنانے پر وقف کر رہے ہیں۔‘
جان کربی نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’اس لیے، اس سے ہمیں پر امید ہونے کی کوئی وجہ نہیں ملتی۔‘

حملے کے پیش نظر یوکرین کے شہریوں نے ملٹری تریننگ لینا شروع کر دی ہے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

حالیہ دنوں میں امریکی عہدیداروں نے تسلسل سے تنبیہی پیغامات جاری کیے ہیں کہ روس کی جانب سے یوکرین پر حملہ کسی بھی وقت ہو سکتا ہے۔ اسی خطرے کے پیش نظر چند ممالک اپنے شہریوں کو جلد از جلد یوکرین سے نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
امریکی مشیر برائے قومی سلامتی جیک سولیون نے امریکی چینل سی این این کو اتوار کو بتایا کہ روس کی جانب سے یوکرین میں ایک بڑی عسکری کارروائی کسی بھی دن ہو سکتی ہے۔
جیک سولیون نے کہا کہ حملے کا آغاز میزائل اور بم پھینکنے سے ہو سکتا جس میں معصوم شہری بھی ہلاک ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ فضائی حملے کے بعد زمینی کارروائی کی جائے گی اور دونوں اطراف سے ہونے والے فائرنگ کے تبادلے میں معصوم شہری بھی پھنس سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ اس سے پہلے کسی بھی امریکی عہدیدار نے حملے سے متعلق اتنے واضح الفاظ میں خبردار نہیں کیا تھا۔
جیک سولیون نے کہا کہ روس شاید سفارتی حل کی طرف جائے لیکن یوکرین کے قریب تعینات روسی فوجیں اس پوزیشن میں ہیں کہ وہ فوری طور پر ملٹری آپریشن لانچ کر سکتی ہیں۔
حملے سے متعلق بڑھتے ہوئے انتباہی پیغامات سے سفارتی رابطوں میں بھی تیزی پیدا ہو گئی ہے۔

خبردار کرنے کے باوجود روس نے یوکرین کی سرحد پر اضافی فوج تعینات کی۔ فوٹو اے ایف پی

یوکرین کے صدارتی دفتر نے اتوار کو کہا کہ صدر ولودومیر زیلینسکی آئندہ چند گھنٹوں میں صدر جو بائیڈن سے بات کریں گے۔
جبکہ جرمن چانسلر اولاف شولز نے کہا ہے کہ حملہ کرنے کی صورت میں جرمنی اور اس کے یورپی اور نیٹو اتحادی ممالک روس پر فوراً سخت پابندیاں عائد کریں گے۔
ایک جرمن حکومتی عہدیدار نے صحافیوں کو بتایا کہ کشیدگی انتہائی خطرناک مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔
دوسری جانب برطانوی سیکرٹری دفاع بین والس نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پریشانی کی بات یہ ہے کہ سفارتی سطح پر رابطے بڑھنے کے باوجود روس سرحدوں پر اضافی فوج تعینات کرتا رہا ہے۔

شیئر: