Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کوئٹہ میں بھوک ہڑتال پر بیٹھے میڈیکل کالجز کے دو طالب علموں کی حالت خراب

کوئٹہ میں تادم مرگ بھوک ہڑتال پر بیٹھے میڈیکل کالجز کے دو طالب علموں کی حالت خراب ہوگئی جس پر انہیں ہسپتال منتقل کردیا گیا۔
بلوچستان کے تین اضلاع خضدار، تربت اور لورالائی میں قائم ہونے والے تین نئے میڈیکل کالجز کے طلبہ و طالبات گذشتہ تین ماہ سے پاکستان میڈیکل کمیشن کے اس فیصلے کے خلاف احتجاج کررہے ہیں جس میں کالج میں گذشتہ چار برسوں کے دوران داخلہ لینے والے تمام طلبہ کو نئے سرے سے ٹیسٹ دینے کا کہا گیا ہے۔
مطالبات تسلیم نہ ہونے پر پانچ طالب علموں نے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ میں 11 فروری سے تادم مرگ بھوک ہڑتال شروع کی اور پیر کی رات کو ہڑتال کے چوتھے روز ان میں سے دو طالبعلم عدنان بلوچ اور ساجد اکبر بلوچ کی طبیعت ناساز ہوگئی جس پر انہیں ایمبولنس کے ذریعے سول ہسپتال کے شعبہ ایمرجنسی منتقل کردیاگیا۔
ڈاکٹر نے احتجاجی طلبہ کو ہڑتال ختم کرنے کی ہدایت کی تاہم دونوں طالب علم کچھ کھانے پینے پر تیار نہیں جس کے باعث ان کے جسم میں پانی کی کمی اور دیگر ضروریات پوری کرنے کے لیے ڈرپ لگائی گئی۔
میڈیکل الائنس کمیٹی کے انچارج مصدق بلوچ نے اردو نیوز کو بتایا کہ عدنان اور ساجد پہلے سے ہی یرقان اور سینے میں انفکیشن کی وجہ سے بیمار تھے۔ بھوک ہڑتال کی وجہ سے دونوں کافی کمزور ہوگئے ہیں، ان کی حالت بگڑ گئی ہے مگر دونوں کا اصرار ہے کہ وہ تب تک کچھ کھائیں گے پیئں گے نہیں جب تک ان کا مطالبہ منظور نہیں کیا جاتا۔
مصدق بلوچ کے مطابق باقی تین طالب علموں سمیع اللہ، ناہید ریکی اور حارث بگٹی نے بھی پانچ دنوں سے کچھ کھایا پیا نہیں جس کی وجہ سے ان کی حالت بھی خراب ہورہی ہے۔ ان تینوں کو بھی ڈرپ لگائی گئی ہے۔
مصدق بلوچ کا کہنا ہے کہ خضدار، تربت اور لورالائی میں قائم ہونے والے تین نئے میڈیکل کالجز میں 2018 میں پہلی مرتبہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ذریعے انٹری ٹیسٹ لیے گئے اور سالانہ 150 طلبہ و طالبات کو داخلے دیے گئے۔
انہوں نے بتایا کہ ’اس طرح گذشتہ چار برسوں کے دوران مجموعی طور پر تینوں میڈیکل کالجز میں 600 طلبہ کو داخلے دیے گئے۔‘
’اب جب  کچھ طالب علم میڈیکل کی پانچ میں سے تین سال  کی تعلیم مکمل کرچکے ہیں اور چوتھا تعلیمی سال جاری ہے تو پاکستان میڈیکل کمیشن نے نئے سرے سے تمام 600 طلبہ سے ٹیسٹ لینے کا حکم جاری کیا ہے اور کہا ہے کہ جو ٹیسٹ پاس نہ کرسکا وہ مزید تعلیم جاری نہیں رکھ سکتا۔‘
مصدق بلوچ کا کہنا ہے کہ ’پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کمیشن نے 2018 میں میڈیکل کالجز کا ’زیرو وزٹ‘ کرکے حکومت بلوچستان کو کالجز اور ٹیچنگ ہسپتالوں میں رہ جانے والی سہولیات فراہم کرنے کی ہدایت کی تھی۔‘
’اگلے سال پی ایم ڈی سی تحلیل ہوگئی اور پاکستان میڈیکل کمیشن بنایا گیا جس نے رجسٹریشن میں تاخیر کی اور تین سال بعد نومبر 2021 میں تینوں کالجوں کو رجسٹرڈ کیا اور اس کے ساتھ ہی زیر تعلیم طلبہ سے دوبارہ ٹیسٹ لینے کا حکم دیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اگر میڈیکل کالجز میں سہولیات پوری نہیں تھیں تو یہ طلبہ کی نہیں حکومت کی غلطی تھی۔ حکومت کی کمزوریوں کی سزا طلبہ کو نہیں دی جاسکتی۔‘
مصدق بلوچ کے مطابق ’بلوچستان کے پسماندہ اور دور دراز علاقوں سے  بڑی مشکل سے میڈیکل کالج تک پہنچنے والے مستقبل کے ڈاکٹر گذشتہ تین ماہ سے تعلیم چھوڑ کر سڑکوں پر ہیں مگر پی ایم سی کوئی بات سننے کو تیار نہیں۔ ہم سب ذہنی دباؤ کا شکار ہیں ہمارا پورا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے۔‘
مصدق بلوچ کا کہنا تھا کہ اس ٹیسٹ کا کوئی جواز موجود نہیں اس لیے ہمارا مطالبہ ہے کہ طالب علموں کو ذہنی دباؤ دینے کے بجائے انہیں اپنی تعلیم مکمل کرنے کی اجازت دی جائے۔
پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) بلوچستان کے صدر ڈاکٹر سرور بادینی کا کہنا ہے بلوچستان کے کالجز کے معاملے میں طے شدہ طریقۂ کار  کے برخلاف قوانین میں ترامیم کرکے طلبہ پر اضافی امتحان کا بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔
’خود ساختہ پالیسی کے مطابق طلبہ و طالبات پر اضافی امتحان کا بوجھ ڈال کر فیل ہونے والے طلبہ کو ڈی سیٹ کرنا کہیں بھی کمیشن کے قواعد و ضوابط میں شامل نہیں، اس کے نتیجے میں طلبہ کے قیمتی تین یا چار سال ضائع ہوجائیں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ پاکستان میڈیکل کمیشن نے رابطہ کرنے کے باوجود اس معاملے پر کوئی مؤقف نہیں دیا، تاہم یہ بتایا گیا کہ اس سلسلے میں منگل کو بلوچستان حکومت کے ذمہ داران کے ساتھ اجلاس ہورہا ہے۔
وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے بھی احتجاج کا نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے کہ صوبائی حکومت یہ معاملہ وفاقی حکومت اور پی ایم سی کے ساتھ اٹھائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم کسی کو بلوچستان کے طلبہ کا مستقبل تباہ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

شیئر: