Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات ’حتمی مرحلے‘ میں ہیں: امریکہ

ایرانی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ ایران کی رائے عامہ امریکی صدر کی محض لفظی گارنٹی کو تسلیم نہیں کرے گی (فائل فوٹو: اے ایف پی)
امریکہ نے کہا ہے کہ جوہری معاہدے سے متعلق ایران کے ساتھ ہونے والی بالواسطہ بات چیت ’حتمی مراحل‘ میں ہے۔
عرب نیوز نے اے ایف پی اور روئٹرز کے حوالے سے کہا ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے بدھ کو کہا کہ ’یہ درحقیقت ایک فیصلہ کن مرحلہ ہے جس میں ہم یہ فیصلہ کرنے کے قابل ہو جائیں گے کہ آیا ہم 2015 کے جوہری معاہدے پر مشترکہ عمل درآمد کریں گے۔‘
دوسری جانب ایران کے سرکردہ مذاکرات کار علی باقری نے جمعرات کو اپنی ایک ٹویٹ میں اس بیان کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ مغربی طاقتوں کو ’حقیقت کا ادراک اور عدم دلچسپی کے رویے سے گریز کرنے کے ساتھ ساتھ گذشتہ چار برسوں سے سبق سیکھنا ہوگا۔‘
’یہ سنجیدہ فیصلوں کا وقت ہے۔‘
اس وقت عالمی طاقتیں ایران اور امریکہ کے درمیان 2015 کے اس معاہدے کی بحالی کے لیے کوششیں کر رہی ہیں جسے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں ختم کر دیا تھا۔
رواں ہفتے کے شروع میں فرانسیسی وزیر جین یویس لا ڈرین نے سینیٹ میں بتایا کہ ’اب یہ ہفتوں نہیں بلکہ دنوں کا مسئلہ ہے اور اس طویل عمل میں حققیت پسندی کا لمحہ ہے۔‘
’ہمیں ایران کی جانب سے سیاسی فیصلوں کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کے پاس چوائس بالکل واضح ہے۔ وہ چاہیں تو آئندہ دنوں میں ایک سنگین بحران کا سبب بنیں یا پھر وہ ایران سمیت تمام فریقوں کے مفادات کا احترام کرتے ہوئے معاہدے کی پاسداری کریں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ وقت تیزی سے ختم ہو رہا ہے کیونکہ ایران 2015 کے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنی ایٹمی افزودگی پر مبنی سرگرمیوں کو جاری رکھے ہوئے ہے۔
ان مذاکرات میں شامل چین کے نمائندے وانگ قون نے روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایران نے امریکہ کے جواب میں ہر نکتے کو مذاکرات کی میز پر لا کر تعمیری کردار ادا کیا۔
انہوں نے کہا کہ ’ایران نے نہ صرف دو ٹوک طرزعمل کا مظاہرہ کیا بلکہ ’کچھ لو اور کچھ دو‘ کی بنیاد پر سیاسی فیصلے بھی کیے۔‘
لیکن ایران نے زور دیا ہے کہ امریکی کانگریس پر معاہدے کی بحالی کے لیے ممکنہ ویانا مذاکرات کے حوالے سے ‘سیاسی موقف‘ دینے پر زور دیا ہے۔
ایران کے وزیر خارجہ حسین عامر عبداللہیان نے اپنے ایک انٹرویو میں امریکہ سے 2015 کے معاہدے سے متعلق گارٹنی کا مطالبہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ ’اصولی بات یہ ہے کہ ایران کی رائے عامہ امریکی صدر کی محض لفظی گارنٹی کو تسلیم نہیں کرے گی کیونکہ 2015 کے معاہدے سے علیحدگی کا فیصلہ امریکہ ہی نے کیا ہے۔‘
’ہم نے اس سارے دورانیے میں مشکلات کا سامنا کیا ہے کیونکہ دوسرے فریق کی جانب سے کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھایا گیا۔‘
ایرانی وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ وہ جوہری معاہدے کے معاملے پر امریکہ کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے لیے بھی تیار ہیں۔
’اگر امریکہ بھی حوالے سے سنجیدہ ہے تو مذاکرات سے قبل اسے عملی اور گراؤنڈ پر دکھائی دینے والے اقدامات اٹھانا ہوں گے۔‘

شیئر: