Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قندیل بلوچ کیس کے ملزم کی رہائی ’ریاست قانونی آپشنز کا جائزہ لے رہی ہے‘

ملیکہ بخاری کا کہنا تھا کہ غیرت کے نام پر خواتین اور بچیوں کا قتل ہمارے معاشرے پر سیاہ دھبہ ہے‘ (فوٹو: پی آئی ڈی)
حکمران جماعت کی رکن قومی اسمبلی اور پارلیمانی سیکریٹری برائے قانون ملیکہ بخاری نے قندیل بلوچ کیس کے حوالے سے کہا ہے کہ ریاست قانون اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کی روشنی میں قانونی آپشنز کا جائزہ لے رہی ہے۔
سنیچر کو ملیکہ بخاری نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ غیرت کے نام پر خواتین اور بچیوں کا قتل ہمارے معاشرے پر سیاہ دھبہ ہے۔ ’قانون میں اسی لیے ترمیم کی گئی کہ کسی خاتون، چاہے وہ کوئی سلیبریٹی ہو یا عام عورت کو قتل کرنے والا آزادانہ طور پر نہ گھوم سکے۔‘
خیال رہے 14 فروری کو لاہور ہائیکورٹ کے ملتان بینچ نے قندیل بلوچ کیس کے مرکزی ملزم کو بری کر دیا تھا۔
جس کے بعد سے یہ معاملہ موضوع بحث ہے، ملزم کے بری ہونے پر وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے بھی افسوس کا اظہار کیا تھا جبکہ سوشل میڈیا پر بھی اس حوالے سے ردعمل سامنے آیا۔

قندیل بلوچ کو 2016 میں 14 اور 15 جولائی کی درمیانی رات گلا دبا کر قتل کیا گیا تھا۔ مقدمے میں ان کے دوبھائیوں محمد وسیم اور اسلم شاہین کو نامزد کیا گیا تھا۔ بعد ازاں مذہبی سکالر مفتی عبدالقوی کو بھی مقدمے میں شامل کر لیا گیا۔
ملیکہ بخاری کی ٹویٹ پر صارفین تبصرے کر رہے ہیں۔
صحافی اجمل جامی نے اس پر خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ’یہی وہ خبر ہے، جس کا ہم کو انتظار تھا، بلاشک قابل تعریف۔‘

ایک اور ٹویپ جون نور نے ملیکہ بخاری کا شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا کہ ’مجھے امید تھی کہ اس پر آپ کا بیان آئے گا۔‘

رضا رومی نے ملیکہ بخاری کا ٹویٹ کو ری ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا ’شکریہ، امید ہے کہ آپ اس معاملے کی پیروی کریں گی تاکہ قندیل بلوچ کو انصاف ملے۔‘

خیال رہے کہ ملزم محمد وسیم کے خلاف شوبز سے وابستہ اپنی بہن قندیل بلوچ کا گلا دبا کر غیرت کے نام پر قتل کرنے کا الزام ہے۔
ملزم محمد وسیم نے عدالت میں سزا منسوخی کی اپیل دائر کر رکھی تھی۔
 

قندیل بلوچ کیس کے مرکزی ملزم محمد وسیم کو 14 فروری کو بری کیا گیا تھا۔ (ٖفوٹو: اے ایف پی)

14 فروری کو ملتان میں سماعت کے دوران ہائی کورٹ ملتان بینچ کے جسٹس سہیل ناصر نے راضی نامہ کی بنیاد اور گواہوں کے بیانات سے منحرف ہونے پر ملزم کو بری کر دیا تھا۔
ستمبر 2019 میں عدالت نے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے ایک بھائی اسلم شاہین اور مفتی عبدالقوی سمیت پانچ ملزمان کو بری کیا جبکہ محمد وسیم کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ 
محمد وسیم نے جرم کا اعتراف کیا تھا اور وجہ خاندان کی شہرت کو نقصان پہنچنا بتایا تھا۔ مقدمے کے مدعی قندیل بلوچ کے والد نے اس وقت بھی عدالت میں اپنے دونوں بیٹوں کو معاف کرنے کی درخواست جمع کروائی تھی جسے عدالت نے رد کر دیا تھا۔

شیئر: