Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

محسن بیگ کیس، ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبرکرائم ونگ کو توہین عدالت کا نوٹس

محسن بیگ کیس کی سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہوئی (فوٹو: اے ایف پی)
اسلام آباد ہائیکورٹ نے محسن بیگ کیس کو اختیارات سے تجاوز کا معاملہ قرار دیتے ہوئے ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کر دیا ہے۔
پیر کو محسن بیگ کیس کی سماعت کے موقع پر عدالت نے ایف آئی اے سائبر ونگ کے حکام کو طلب کرتے ہوئے سماعت گیارہ بجے تک ملتوی کر دی تھی۔
سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ ایف آئی اے عدالت میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس نے ایف آئی اے ڈائریکٹر پر برہمی کا اطہار کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے ایف آئی اے کو کہا تھا کہ کوئی بندہ گرفتار نہیں ہو گا۔
’یہ عدالت آپ کے خلاف کارروائی کرے گی۔‘
عدالت کا کہنا تھا کہ آپ کا کام لوگوں کو تحفظ دینا ہے، کسی ایلیٹ کی نجی ریپوٹیشن بحال کرنا نہیں۔
 چیف جسٹس کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایف آئی اے نے ہمیشہ اختیارات کا غلط استعمال کیا
ایف آئی اے ڈائریکٹر سے عدالت نے پوچھا کہ درخواست گزار نے لاہور میں درخواست کیوں دی تھی؟
ان کے مطابق ’یہ عدالت ایف آئی اے کو کسی کے بنیادی حقوق متاثر نہیں کرنے دے گی۔‘

کیا آپ قانون سے بالاتر ہیں؟

چیف جسٹس نے ڈائریکٹر ایف آئی اے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ قانون سے بالا تر ہیں، جو بحث کیے جا رہے ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ٹی وی شو میں کتنے لوگ تھے، کیا تمام لوگوں نے یہی بات کی، کیا آپ نے باقیوں کو گرفتار کیا؟
چیف جسٹس کے مطابق ’کیا ایف آئی اے عوام کی خدمت کے لیے ہے یا پبلک آفس ہولڈرز کے لیے‘
انہوں نے ڈائریکٹر ایف آئی اے سے کہا کہ آپ نے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے کیس بنایا۔

’آئین کو نہ ماننا سب سے بڑی ولگیریٹی ہے‘

سماعت کے دوران عمران خان کی سابق اہلیہ ریحام خان کی کتاب بھی زیر بحث آئی، چیف چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا کتاب کا ریفرنس دینا تضحیک ہے؟ سب سے بڑی ولگیریٹی آئین کو نہ ماننا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ایک  جمہوری معاشرے میں ایف آئی اے کا یہ کنڈکٹ رہے گا تو ان آئینی عدالتوں کو بند کر دیں۔
انہوں نے پوچھا کہ آپ کو ہر دفعہ بلا کر طریقے سے سمجھایا جائے کہ یہ نہ کریں۔
عدالت کی جانب سے یہ بھی پوچھا گیا کہ کیا ملزم نے صفحہ پروگرام میں پڑھا؟
’عدالت آپ کو شوکاز نوٹس دے رہی ہے، آپ نے عدالت کے ساتھ فراڈ کیا۔‘

آپ میرے بچے ہیں، نہ میں کسی کا باپ‘

سماعت کے دوران ڈائریکٹر ایف آئی اے نے کہا ’ہم بھی آپ کے بچے ہیں سر‘
جس پر چیف جسٹس نے مزید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’نہ آپ میرے بچے ہیں، نہ میں کسی کا باپ ہوں۔‘
چیف جسٹس نے ڈائریکٹر سے پوچھا آپ کے پاس کتنے کیسز زیر التوا ہیں۔
جس پر ڈائریکٹر کی جانب سے بتایا گیا کہ 14 ہزار کیسز زیرالتوا ہیں۔
جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے 14 کیسز میں گرفتاریاں کیں؟
جس پر ڈی جی نے کہا کہ 21 ڈی کا قانون پڑھنے دیں پر جس عدالت نے اجازت دے دی اور ساتھ کہا ’جی پڑھیں، آپ اپنے اور ایف آئی اے کو مزید شرمندہ کریں گے۔‘
ملک میں مارشل لا لگا ہے؟
اس کے بعد ڈائریکٹر ایف آئی اے نے 21 ڈی کا قانون پڑھ کر سنایا، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا آپ کو سمجھ آ رہی ہے کہ آپ کیا پڑھ رہے ہیں؟ اس کا مطلب آپ کو معلوم ہے؟
اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ یہاں آپ کے سر شرم سے جھک جانے چاہییں، آپ یہاں مزید بحث کیے جا رہے ہیں۔ کیا ملک میں مارشل لگا ہوا ہے۔
اس موقع پر ایف آئی ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ عدالت سیکشن 22 دیکھ لے، جس پر چیف جسٹس نے انہیں یہ سیکشن پڑھ کر سنانے کا حکم دیا۔
سماعت کے موقع پر عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ کیوں نہ عدالت ڈائریکٹر سائبر کرائم ایف آئی اے کے خلاف ایکشن کا حکم دے دے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ’کون سا ڈائریکٹر ہے جو آئین کو مانتا ہے نہ آئینی عدالت کو؟ یہ کسی ایک شخص کا نہیں بلکہ شہریوں کے حقوق کے تحفظ کا معاملہ ہے۔‘
چیف جسٹس کا یہ بھی کہنا تھا کہ کیا ایف آئی اے قانون اور آئین سے  بالاتر ہے؟
’ کیوں نہ ایف آئی اے کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے‘
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی قانون ہاتھ میں نہیں لے سکتا، ریاست کی بھی رٹ ہونی چاہیے۔
’اس کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ کوئی قانون ہاتھ میں لے‘
سماعت کے موقع پر ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نیاز اللہ نیازی نے آئی جی اسلام آباد اور ڈسٹرکٹ میجسٹریٹ کی رپورٹس عدالت میں پیش کیں۔
بعدازاں کیس کی سماعت 24 فروری تک ملتوی کر دی گئی۔
 
 

شیئر: