Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی گلوکارہ عتاب نے جب امریکی فنکارہ کو گرویدہ بنا دیا

سعودی عرب میں حال ہی میں امریکی گلوکارہ الیشیا کیز کی جانب سے ایک پرانے گیت’جانی الاسمر‘ کی شاندار پرفارمنگ کے بعد مملکت میں انٹرنیٹ پر اس گیت کی پہلی سعودی گلوکارہ عتاب کے بارے میں بڑے پیمانے پر سرچنگ کی گئی۔
امریکی گلوکارہ کی آواز میں یہ نغمہ سوشل میڈیا پر وائرل ہوا تو سامعین کو خیال آیا کہ یہ گیت کس سعودی گلوکارہ نے پہلی بار گایا اور اس کی فن کی دنیا میں شہرت کیسی تھی؟
العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق سعودی فنکارہ عتاب کو سعودی عرب کی پہلی خاتون گلوکاروں میں شمار کیا جاتا ہے اور وہ اپنی سریلی آواز کی وجہ سے جانی جاتی ہیں۔
عتاب کا اصل نام طروف عبدالخیر آدم طلال تھا مگر وہ اپنے شوبز کے نام عتاب سے مشہور ہوئیں۔
1947 میں ریاض میں پیدا ہوئیں اور 13 سال کی عمر میں وہ فن کی دنیا میں داخل ہوئیں۔
ان کا نام ’طروف‘ ان کی ایک استانی نے تبدیل کیا اور اس کی جگہ عتاب رکھا گیا۔
عتاب سکول کے دور ہی سے بہت اچھا گاتی تھیں، ان کی معلمہ ان سے بہت متاثر ہوئیں اور عتاب کی دوسری ہم جماعتوں سے کہا کہ وہ اس کا کوئی فنی نام تجویز کریں۔ آخر کار’عتاب‘ کے نام پر اتفاق ہوا۔
کم عمری میں ’عتاب‘ کے گائے گیت اس وقت کے فنکار طلال مداح مرحوم نے سنے۔ وہ بہت متاثر ہوئے۔انہوں نے ان کی صلاحیتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں فن کے اصول و ضوابط سکھانے اور گٹار بجانے کا مشورہ دیا۔ عتاب نے ریڈیو میں بچوں کے پروگراموں میں گایا، اور وہاں اچھی کامیابی حاصل کی اور خلیجی ممالک میں کافی شہرت پائی۔
سنہ 1966 میں فنکارہ ’عتاب‘ نے اپنا پہلا گانا عوام کے سامنے پیش کیا، جس کا عنوان تھا ’لا یا بنت‘۔ اس گانے نے غیرمعمولی مقبولیت اور شہرت حاصل کی۔
اس کے بعد انہوں نے کویت ٹی وی کے لیے گیت کے سیشن کے نظام میں کئی گانے پیش کیے اور کچھ ہی عرصے کے بعد وہ کویت ٹی وی پر دویتو کے انداز میں گانا ’یعنی کیف‘ پرفارم کرتی نظر آئیں، انھوں نے اسی گیت کے سیشن میں کئی گانے بھی پیش کیے۔ جن میں’ودعتک اللہ یا مسافر‘ اور ’اللہ حسیبک‘ جیسے گانے شامل تھے۔
شونز کے محقق اور نقاد محمد سلامہ نے العربیہ ڈاٹ نیٹ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ گلوکارہ عتاب گذشتہ صدی کے ساٹھ کی دہائی میں فن کے آسمان پر جگمگا اٹھی تھی۔

سنہ 1966 میں فنکارہ ’عتاب‘ نے اپنا پہلا گانا عوام کے سامنے پیش کیا، جس کا عنوان تھا ’لا یا بنت‘۔ اس گانے نے غیرمعمولی مقبولیت اور شہرت حاصل کی۔ فوٹو العربیہ ڈاٹ نیٹ

وہ دھنوں کی پہچان اور مہارت کے کامیاب انتخاب کے لیے جانی جاتی تھیں اور انھوں نے فنکارانہ نشستوں میں فنکار حیدر فکری کے ساتھ ایک ممتاز جوڑی بنائی اور فنکار طلال مدح نے ابتدا میں ان کا ساتھ دیا۔ا
نھوں نے ’یا سعودی، یا سعودی‘، ’زلل الطرب‘ اور دیگر گانے گائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ 1984 میں فنکار ’عتاب‘ نے فوزی محسن کے کمپوز کردہ ثریا قابل اور الحان فوزی محسون کے کلام سے مشہور گانا ’جانی الاسمر جانی‘ پیش کیا اور اس وقت بڑی کامیابی حاصل کی اور اب تک یہ اکثر مواقع پر گایا جاتا ہے۔ .
انہوں نے کہا کہ عتاب اپنی خوبصورت آواز کی وجہ سے مشہور تھی اور وہ گانے کے دوران عوامی رقص بھی کرتی تھیں۔
عتاب نے بہت سے موسیقاروں کے ساتھ کام کیا جن میں طارق عبد الحکیم، محمد شفیق، ڈاکٹر عبد الرب ادریس، فوزی محسون، محمد المجی، طلال مداح، موسیقار سراج عمر، کویتی موسیقار یوسف المھنا اور دیگر موسیقار شامل ہیں۔
نقاد سلامہ نےبتایا کہ66 سال کی عمر میں اور کینسر کی طویل بیماری کے بعد عتاب کا کیریئر اتوار کی شام 19 اگست 2007 کو مصر میں اختتام پذیر ہو گیا۔

شیئر: