Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بیوہ کی دوسری شادی پر ریاست نوکری نہیں چھین سکتی: عدالت 

عاصمہ شہزادی نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔ فوٹو وکیپیڈیا
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر ملتان میں عدالت نے دوسری شادی کرنے پر خاتون سے سرکاری نوکری واپس لینے کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔ 
خاتون عاصمہ شہزادی جو کہ محکمہ ڈاک میں کلرک کے عہدے پر فائز تھیں نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی کہ انہیں محکمے نے نوکری سے اس لیے نکال دیا کہ انہوں نے شادی کرلی ہے۔ 
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ان کے سابق شوہر عمر حیات محکمہ ڈاک میں چپڑاسی کی نوکری کرتے تھے. ان کے فوت ہونے کے بعد انہوں نے محکمہ ڈاک میں درخواست دی کہ شوہر کی جگہ پر بیوہ کے کوٹے پر انہیں نوکری دی جائے۔
عاصمہ شہزادی کے مطابق ان کے سابق شوہر عمر حیات 2016 میں فوت ہوگئے تھے۔ 
عاصمہ کی درخواست کو منظور کرتے ہوئے محکمہ ڈاک نے انہیں جنرل پوسٹ آفس مظفر گڑھ میں نویں سکیل میں کلرک کی نوکری دے دی۔ 
عاصمہ شہزادی نے عدالت کو بتایا کہ سال 2017 میں انہوں نے محمد وحید سے شادی کی جس کے بعد محکمہ ڈاک نے یہ کہہ کر نوکری سے نکال دیا کہ اب وہ بیوہ نہیں رہیں۔
عدالت نے خاتون کی استدعا سننے کے بعد محکمہ ڈاک کو نوٹس جاری کردیا۔
سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ 2015 کے قانون کے مطابق اگر کوئی خاتون اپنے شوہر کی وفات کے بعد سرکاری نوکری حاصل کرتی ہے تو دوسری شادی کرنے کے بعد ان کے پاس سرکاری نوکری کرنے کا حق نہیں رہتا۔ یہ فیصلہ بھی اسی قانون کے تحت دیا گیا ہے۔ 
جج جسٹس سہیل ناصر نے دونوں طرف کے دلائل سننے کے بعد اپنے فیصلے میں لکھا کہ ’شادی ایک مذہبی فریضہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اخلاقی تحفظ اور سماجی معاہدہ ہوتا ہے۔ ’بیوہ‘ کا لفظ ساتھ لگنے کے بعد اس معاشرے میں خواتین اپنے تحفظ کے لیے دوبارہ شادی کرتی ہیں تاکہ سماج کی نظروں میں بہتر مقام حاصل کرسکیں۔‘ 
عدالت نے لکھا کہ ’عاصمہ شہزادی نے بھی اسی صورت حال کے پیش نظر دوسری شادی کی۔‘
’عاصمہ کے اس فیصلے نے البتہ ان کی نوکری چھین لی۔ دوسرے لفظوں میں یا تو آپ ہمیشہ بیوہ رہیں تو نوکری آپ کے پاس رہے گی۔‘ 
جسٹس سہیل ناصر نے اپنے فیصلے میں مزید لکھا کہ ’ریاست کا کام اپنے شہریوں کی تکالیف کو کم کرنا ہوتا ہے نہ کہ ان کے مسائل بڑھانا۔ ایسے قوانین جن سے بنیادی تحفظ چھین لیا جائے ایک غیر آئینی اور غیر قانونی اقدام ہے۔‘ 
اپنے فیصلے میں عدالت نے کہا ہے کہ ’محکمہ ڈاک نے عاصمہ سے نوکری واپس لے کر آئین کے آرٹیکل 35 کی صریحاً خلاف ورزی کی ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 35 شادی، خاندان، ماں اور بچے کے تحفظ کا ضامن ہے۔ جس پالیسی کے تحت عاصمہ سے نوکری واپس لی گئی عدالت اس کو آئین کے متصادم قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دیتی ہے۔‘ 
عدالت نے اپنے فیصلے میں محکمہ ڈاک کو حکم جاری کیا ہے کہ وہ فی الفور عاصمہ شہزادی کو ان کی نوکری واپس کرے۔ 
عدالت نے اپنے فیصلے میں ریمارکس دیے کہ ’یہ ہم سب کے لیے حیران کن ہے کہ محکمہ ڈاک نے کس طرح ایک فرسودہ قانون کو ایک خاتون کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔‘

شیئر: