Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امریکہ میں بہادری کا ایوارڈ لینے والے ’ماموں‘ کار چِھننے کی واردات میں ہلاک

پولیس کا کہنا ہے کہ ’عبدالرؤف گاڑی چھیننے میں مزاحمت پر ہلاک ہوئے‘ (فائل فوٹو: روئٹرز)
’میرے ماموں، میرے ہی ماموں نہیں تھے بلکہ وہ امریکہ اور واشنگٹن ڈی سی میں بسنے والے تمام پاکستانیوں کے ماموں تھے۔ وہ ہر ایک کے ساتھ ہمدردی کرتے تھے۔‘
یہ کہنا تھا امریکہ میں پیر کے روز کار چھیننے کی واردات کے دوران مزاحمت پر ہلاک ہونے والے پاکستانی امریکی کاروباری اور سماجی شخصیت عبدالرؤف کے بھانجے آغا علی کا۔
امریکہ میں ایک خاتون پولیس اہلکار کی جان بچانے پر بہادری کا اعلیٰ ایوارڈ حاصل کرنے والے عبدالرؤف کے ساتھ پیش آنے والے واقعے سے متعلق ابھی تک پولیس نے مکمل تفصیلات نہیں دیں تاہم یہ ان کے اہل خانہ کو بتایا گیا ہے کہ یہ واقعہ عبدالرؤف سے کار چھیننے کا ہے۔
اس واقعے میں ملزم ان سے کار چھیننے کی کوشش کر رہے تھے جبکہ عبدالرؤف نے اس پر مزاحمت کی تو ملزم نے فائرنگ کردی۔ انہیں تین گولیاں لگیں جس سے وہ موقعے پر ہی ہلاک ہوگئے۔

عبدالرؤف کو امریکہ میں بہادری کا اعلیٰ ایوارڈ کیسے ملا؟

عبدالرؤف کو امریکہ میں  بہادری پر اعلیٰ ایوارڈ چند سال قبل اس وقت دیا گیا تھا جب انھوں نے ایک خاتون پولیس اہلکار کی جان اپنی جان پر کھیل کر بچائی تھی۔
اس واقعے کے متعلق بتایا گیا تھا کہ  عبدالرؤف ایک شاہراہ پر موجود تھے۔ اسی شاہراہ پر سائیڈ پر ایک خاتون اہلکار بھی اپنی گاڑی میں موجود تھیں۔
واقعے کے مطابق خاتون پولیس اہلکار گاڑی سے اترتی ہیں تو قریب ہی موجود ایک شخص خاتون اہلکار کے سر پر کوئی چیز مارتا ہے۔ جس سے وہ نیچے  گر جاتی ہیں۔ حملہ آور خاتون اہلکار کے ہاتھوں کو کمر پر باندھ کر اس کا اسلحہ نکالنے کی کوشش کرتا ہے تو قریب ہی موجود عبدالرؤف مداخلت کرتے ہیں۔ عبدالرؤف فورا موقع پر پہنچے اور اس شخص کو پکڑتے ہیں۔ وہ عبدالرؤف کی مداخلت کے سبب سے موقع سے فرار ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد عبدالرؤف زخمی خاتون پولیس اہلکار کو ہسپتال پہنچاتے ہیں۔‘
چند سال قبل پیش آنے والے اس واقعے کو امریکی میڈیا نے رپورٹ کیا تھا۔ جس کے بعد واشنگٹن ڈی کی پولیس نے عبدالرؤف کو بہادری کے اعلیٰ ترین اعزاز سے نوازا تھا۔

واشنگٹن ڈی سی کی پولیس نے ماضی میں عبدالرؤف کو بہادری کے اعلٰی ترین اعزاز سے نوازا تھا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

عبدالرؤف 80 کی دہائی میں صوبہ پنجاب کے شہر لاہور سے امریکہ منتقل ہوئے تھے۔ انھوں نے پنجاب یونیورسٹی سے صحافت میں ماسٹرز کر رکھا تھا۔
چند ماہ قبل تک وہ واشنگٹن ڈی سی میں ’چٹنی‘ کے نام سے پاکستانی ریستوران چلاتے تھے۔ یہ ریستوران پاکستانی کھانوں کا بہترین مرکز ہونے کے علاوہ پاکستانی کمیونٹی کے لیے ثقافتی اور ملاقاتوں کا بھی مرکز تھا۔
’عبدالرؤف کی بیٹی اب تک صدمے میں ‘
آغا علی کہتے ہیں کہ ’یہ تین لوگوں کا گھرانہ تھا جو کہ ایک دوسرے پر جان چھڑکتا تھا۔ ان کی بیٹی اس واقعے کے بعد سے اب تک صدمے کی حالت میں ہیں۔‘
آغا علی کہتے ہیں کہ ’زینب رؤف، عبدالرؤف کی بہت لاڈلی بیٹی تھیں۔ زینب رؤف بھی اپنے والد پر جان چھڑکتی تھیں۔ دونوں مثالی والد اور بیٹی تھے۔
جس روز یہ واقعہ پیش آیا اسی روز صبح کے وقت عبدالرؤف نے کام پر جاتے ہوئے زینب رؤف سے شام کو کہیں لے جانے کا وعدہ کیا تھا۔
آغا علی نے بتایا کہ ’ڈاکٹرز اور ہم سب مل کر کوشش کر رہے ہیں کہ وہ صدمے کی کیفیت سے باہر نکل آئیں مگر وہ باہر نہیں نکل پا رہیں۔ وہ بس ایک ہی جملہ کہہ رہی ہیں کہ ’ڈیڈی نے شام کو آنا تھا۔‘

’جب سے زینب رؤف کو والد کی وفات کی اطلاع ہوئی ہے اس وقت سے وہ ڈاکٹروں کی نگرانی میں ہیں‘ (فائل فوٹو: آئی سٹاک)

آغا علی کے مطابق ’عبدالرؤف کی زندگی کا واحد مقصد اپنی بیٹی کو ڈاکٹر بنانا تھا۔ میرے نانا اور زینب کے دادا ڈاکٹر تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ ان کی پوتی بھی ڈاکٹر بنے۔
زینب بھی بہت محنت کر رہی تھیں جبکہ عبدالرؤف بھی اپنے تمام وسائل اپنی اکلوتی اولاد کا مستقبل بنانے پر خرچ کررہے تھے۔‘
’میری ممانی صبا رؤف امریکہ میں ایک استاد ہیں۔ وہ اس وقت صرف البم کو دیکھ رہی ہیں جس میں ان کی خاندانی تصاویر ہیں۔ ان کی حالت بھی کوئی اچھی نہیں ہے۔‘
آغا علی نے کہا کہ ’میں بتاؤں کہ جب سے واقعہ ہوا ہے۔ مجھے لوگوں کے اتنے فونز آئے ہیں کہ بتا نہیں سکتا۔ لوگ ان کو یاد کر کے روتے ہیں۔‘
’وہ شفیق انسان تھے‘
آغا علی کہتے ہیں کہ ’میں ریسٹورنٹ میں ان کے ساتھ کام کرتا تھا۔ مگر کئی واقعات ایسے ہیں جو مجھے بھی نہیں بتائے گئے۔ ایک مرتبہ انہیں ایک خاتون نے فون کیا جو رو رہی تھیں۔ وہ کہہ رہی تھیں کہ اس کی شادی عبدالرؤف کے ریسٹورنٹ کے ہال میں ہوئی تھی۔‘

چند ماہ قبل تک عبدالرؤف واشنگٹن ڈی سی میں پاکستانی ریستوران چلاتے تھے (فائل فوٹو: فلکر)

خاتون کے مطابق ’شادی کے روز جب وہ ہال میں داخل ہوئیں تو اس وقت عبدالرؤف نے ان کا انتہائی پرتپاک استقبال کیا۔ شادی کا ہنگامہ شروع ہو گیا تو سب لوگ مجھے چھوڑ کر اپنے معاملات میں مصروف ہوگئے۔ وہ مجھے لے کر ایک کمرے میں چلے گئے۔‘
’وہاں پر انھوں نے مجھے چائے اور پانی پلایا اور مجھے سمجھایا کہ یہ میری زندگی کا بہت یادگار لمحہ ہے۔ اس لمحے مجھے حوصلہ رکھنا چاہیے۔ ان کا برتاؤ کسی بھی طرح ایک انتہائی شفیق بزرگ سے کم نہیں تھا۔ زندگی کے اتنے سال گزرنے کے باوجود وہ مجھے ابھی بھی یاد ہیں۔‘
آغا علی کا کہنا ہے کہ ’انھیں کچھ اور فون کالز بھی آئیں۔ ایک شخص کہہ رہے تھے کہ جب میں نیا نیا امریکہ گیا تو اس وقت میرے پاس نہ تو پیسے تھے نہ ہی کام۔ مجھے عبدالرؤف نہ صرف اپنے ریسٹورنٹ میں کھانا کھلایا کرتے تھے بلکہ انھوں نے مجھے کام بھی دلایا اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں میری مدد کی۔‘
’امریکہ میں پاکستانیوں کے ماموں‘
آغا علی کے مطابق ’ہمارا ریسٹورنٹ پاکستانیوں کا ثقافتی مرکز ہوا کرتا تھا۔ جہاں پر روزانہ بڑی تعداد میں پاکستانی آتے تھے۔ وہاں پر محفلیں جما کرتی تھیں۔‘

عبدالرؤف 80 کی دہائی میں صوبہ پنجاب کے شہر لاہور سے امریکہ منتقل ہوئے تھے (فائل فوٹو: روئٹرز)

’میں عبدالرؤف کو ماموں کہتا تھا۔ میرے دیکھا دیکھی سب لوگ انہیں ماموں کہنے لگے۔ اگر میں اس وقت ریسٹورنٹ کا منظر یاد کروں تو کچھ اس طرح ہوگا۔ یار ماموں کدھر ہیں؟ یار ماموں سے پوچھنا وہ کام کیا ہے؟‘
ان کا کہنا تھا کہ ’وہ ہر ایک کی بات کو خندہ پیشانی سے سنتے اور پھر اس کے مسائل کو بھی حل کرتے تھے۔ کمیونٹی کی اسی خدمت نے انہیں سارے پاکستانیوں کا ماموں بنا دیا تھا۔‘
’اس کے علاوہ وہ انتہائی بہادر تھے۔ کسی کی بھی غلط بات برداشت نہیں کرتے تھے۔ بہادری سے ہر جگہ پاکستانیوں کی نمائندگی کرتے تھے۔‘
اب پاکستانیوں کا ماموں ان سے چِھن چکا ہے۔ ساری پاکستانی کمیونٹی سوگ کی کیفیت میں ہے۔

شیئر: