Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سماجی رکاوٹوں سےنبردآزما ارم بلوچ، ’لڑکیوں کے لیے ہاکی اکیڈمی کا قیام میرا خواب تھا‘

ارم بلوچ نے سال 2017 میں لڑکیوں کے لیے ہاکی اکیڈمی قائم کی۔ فوٹو: عرب نیوز
صوبہ سندھ کے ضلع جیک آباد سے تعلق رکھنے والی ارم بلوچ کا خواب تھا کہ وہ ہاکی کی پروفیشنل کھلاڑی بنیں لیکن جب سماجی سوچ ان کی راہ میں رکاوٹ بنی تو انہوں نے اور بھی اونچے خواب دیکھنا شروع کر دیے۔
ارم بلوچ نے خود سے وعدہ کیا کہ وہ ایسا ماحول فراہم کریں گی جہاں بچیوں کے خواب پورے ہو سکیں۔
انہوں نے عرب نیوز کو بتایا کہ ہاکی اکیڈمی کا قیام ان کا خواب بن گیا تاکہ جو بچیاں کھیلنا چاہتی ہیں انہیں اس صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑے جن سے وہ گزر چکی ہیں۔
دو لاکھ کی آبادی والے شہر جیک آباد میں بچیوں کے کھیلوں میں شرکت کو سماجی طور پر اچھا نہیں سمجھا جاتا۔
’میرے لیے آگے بڑھنا بہت مشکل تھا۔ لڑکیاں سپورٹس نہیں کھیل سکتی تھیں۔‘
سنہ 2017 میں جب ارم بلوچ 23 برس کی تھیں تو انہوں نے جیک آباد میں سٹارز ویمن ہاکی اکیڈمی کی بنیاد رکھی۔ یہ خواتین کے لیے خطے میں قائم ہونے والی پہلی اکیڈمی تھی جو ارم بلوچ اور ان کی دوستوں نے اپنی جمع پونجی سے شروع کی تھی۔
چار سال کی عمر میں ارم بلوچ کے والد فوت ہو گئے جبکہ اکلوتا بھائی سال 2015 کے ایک بم دھماکے میں ہلاک ہو گیا تھا۔ ان کی والدہ آصفہ بیگم نے اپنی بیٹی کو ہر طرح کی مدد فراہم کی اور اپنا خواب پورا کرنے کا کہا۔
آصفہ بیگم نے بتایا کہ ان کے بیٹے کی موت تمام خاندان کے لیے ایک المیہ تھا اور ارم بلوچ کے لیے اس سانحے سے باہر نکلنے کا واحد راستہ اپنے بچپن کے خواب کو پایۂ تکمیل تک پہنچانا تھا۔
’خاندان اور دوستوں کی طرف سے دباؤ کے باوجود میں نے اسے وہ سب کچھ کرنے دیا جو وہ چاہتی تھی۔ شروع میں یہ آسان نہیں تھا۔‘

ارم بلوچ کی اکیڈمی سے اٹھارہ کھلاڑی صوبائی سطح پر کھیل رہی ہیں۔ فوٹو: ٹوئٹر ارم بلوچ

آصفہ بیگم نے بتایا کہ ’لڑکیوں کی کھیلوں میں شرکت پر لوگ ذہنی طور پر تیار نہیں تھے تو انہوں نے رکاوٹیں کھڑی کرنا شروع کر دیں اور اکثر نے دھمکیاں بھی دیں لیکن ہم نہیں رکے۔‘
ابتدائی طور پر لڑکیوں کو پچ تلاش کرنے میں مشکلات کا سامنا تھا لیکن آخر کار ایک گرلز کالج نے اپنا گراؤنڈ استعمال کرنے کی اجازت دے دی۔
ارم بلوچ اور ان کی سہیلیاں ابھی بھی اپنی جمع پونجی سے اکیڈمی کا خرچ چلاتی ہیں لیکن حال ہی میں انہیں کچھ عطیات ملے ہیں۔
اس ہاکی کلب کی 18 خواتین کھلاڑی صوبائی اور قومی سطح پر ٹورنامنٹ کھیل چکی ہیں جن میں کلب کی شریک بانی نبیلہ بھایو بھی شامل ہیں جو صوبائی سندھ ہاکی ٹیم میں گول کیپر ہیں۔
بلکہ سال 2019 میں نبیلہ بھایو کو پنجاب یونیورسٹی میں سپورٹس کوٹے پر داخلہ بھی مل گیا تھا تھا جہاں سے انہوں نے کامرز میں ماسٹرز کی ڈگری مکمل کی ہے۔  
نبیلہ بھایو کو سب سے زیادہ سپورٹ ان کے والد سے ملی ہے۔ ان کے والد کا کہنا ہے کہ  جیک آباد کی قومی سطح پر نمائندگی کرنے پر انہیں اپنی بیٹی پر فخر ہے۔

شیئر: