Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تحریک عدم اعتماد، منحرف ارکان کے ووٹوں پر قانون کیا کہتا ہے؟

حکام کے مطابق 'لیگل ٹیم نے بتایا ہے کہ کسی رکن کے ووٹ کو گنتی میں شامل کرنے سے انکار کا کوئی قانونی راستہ موجود نہیں‘ (فوٹو: اے پی پی)
پاکستان کے پارلیمان میں ان دنوں ایک بار پھر ارکان کی وفاداریاں تبدیل ہونے کے خدشے کے پیش نظر منحرف ارکان کے خلاف کارروائی کی بات ہو رہی ہے۔
حکومت کی جانب سے نہ صرف اپنے ارکان کو اجلاس میں شرکت سے روکنے بلکہ تحریک عدم اعتماد میں حصہ لینے والے ممکنہ ارکان کے ووٹوں کو گنتی میں شامل نہ کرنے کے بارے میں بھی غور کیا گیا ہے۔ 
منصوبہ بندی کے تحت سپیکر ان ارکان کو منحرف قرار دے کر ان کا ووٹ گنتی میں شامل نہ کرنے کی رولنگ دیں گے۔ اس صورت حال نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے جیسے کہ:
1: کیا کوئی پارلیمانی لیڈر اپنے ارکان کو اجلاس میں شرکت سے روک سکتا ہے؟
2: کیا سپیکر کسی رکن کا ووٹ گنتی میں شامل کرنے سے انکار کر سکتا ہے؟
3: کیا منحرف ارکان کے خلاف ڈیفیکشن کلاز ووٹ ڈالنے سے پہلے لاگو ہو سکتی ہے؟ 
پارلیمانی ذرائع نے اس حوالے سے اردو نیوز کو بتایا ہے کہ ’سپیکر اسد قیصر نے کم و بیش یہی سوال قومی اسمبلی کی لیگل برانچ کے اعلی حکام کے اجلاس میں پوچھے اور ان کی قانونی رائے طلب کی۔‘
حکام نے بتایا ہے کہ 'سپیکر کو بتایا گیا کہ پارٹی فیصلے کے تحت ارکان کو اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا کہا جا سکتا ہے۔ ارکان پارٹی فیصلے کی عموماً پاسداری بھی کرتے ہیں لیکن اگر کوئی رکن اجلاس میں شرکت کے لیے پہنچ جاتا ہے تو اسے منحرف رکن اس وقت تک قرار نہیں دیا جا سکتا جب تک وہ مخالفت میں ووٹ نہیں دیتا۔' 

حکومت کی جانب سے تحریک عدم اعتماد میں حصہ لینے والے ممکنہ ارکان کے ووٹوں کو گنتی میں شامل نہ کرنے کے بارے میں غور کیا گیا ہے (فوٹو: قومی اسمبلی) 

حکام کا کہنا ہے کہ 'لیگل ٹیم نے سپیکر کو آگاہ کیا ہے کہ کسی رکن کو ووٹ ڈالنے اور اس کے ووٹ کو گنتی میں شامل کرنے سے انکار کا کوئی قانونی راستہ موجود نہیں ہے۔ اگر سپیکر نے ایسی کوئی رولنگ دی تو اس سے ملک میں آئینی بحران پیدا ہو سکتا ہے۔' 
حکام نے سپیکر کو یہ بھی بتایا ہے کہ کسی بھی رکن کے منحرف ہونے کی صورت میں اس کے خلاف کارروائی کا طریقہ کار آئین میں موجود ہے۔ یہ کارروائی اس وقت ہی شروع ہو سکتی ہے جب کوئی رکن وزیراعظم کے انتخاب، عدم اعتماد یا اعتماد کا ووٹ اور منی بل پر پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دے۔
’اس سے قبل اسے منحرف رکن کہہ کر ووٹنگ سے روکنے سمیت کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جا سکتی۔' 
اس حوالے سے سپیکر کے سامنے آرٹیکل 63 اے کی مکمل وضاحت پیش کی گئی ہے۔ 

آرٹیکل 63 اے کے تحت کارروائی کیسے ہوتی ہے؟

آئین میں آرٹیکل 63 اے 2010 میں اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے شامل کیا گیا جس کا مقصد ہارس ٹریڈنگ اور فلور کراسنگ کو روکنا تھا۔  
اس کے تحت اگر کوئی رکن قومی اسمبلی اپنی پارٹی کی بنیادی رکننیت سے استعفٰی دے یا کسی دوسری جماعت میں شامل ہو جائے یا پارٹی سربراہ کی مرضی کے خلاف ووٹنگ کے دوران غیر جانبدار رہے یا مخالفت میں ووٹ دے تو اس کے خلاف نا اہلی کی کارروائی عمل میں لائی جا سکتی ہے۔ 
جن معاملات میں پارٹی سربراہ متعلقہ رکن کے خلاف رکنیت ختم کرنے کی کارروائی عمل میں لا سکتے ہیں ان میں وزیر اعظم یا وزرائے اعلیٰ کا انتخاب، اعتماد کا ووٹ دینے یا عدم اعتماد کے خلاف ووٹ کرنے اور منی بل یا آئینی ترمیم کے بل پر ووٹنگ شامل ہیں۔  
ان معاملات میں اگر کوئی پارٹی سربراہ کی مرضی کے خلاف ووٹ دیتا ہے تو پارٹی سربراہ اپنے رکن سے وضاحت طلب کرے گا۔ وضاحت سے مطمئن نہ ہونے کی صورت میں اسے منحرف قرار دے کر تحریری طور پر پریزائیڈنگ آفیسر اور الیکشن کمیشن کو آگاہ کیا جا سکتا ہےاور یہی تحریری نوٹس متعلقہ رکن کو بھی بھیجا جائے گا۔  
پریزائیڈنگ آفیسر دو دن میں معاملہ چیف الیکشن کمشنر کو بھیجیں گے اور اگر وہ دو دن میں معاملہ ریفر نہیں کرتے تو وہ ریفر شدہ ہی سمجھا جائے گا۔ چیف الیکشن کمشنر اسے الیکشن کمیشن کے سامنے رکھیں گے جو 30 دن مین اس پر فیصلہ کرے گا۔  

حکام نے بتایا کہ کسی رکن کو اس وقت تک منحرف رکن  قرار نہیں دیا جا سکتا جب تک وہ مخالفت میں ووٹ نہیں دیتا (فوٹو: روئٹرز)

انحراف ثابت ہو جانے کی صورت میں متعلقہ رکن کی اسمبلی رکنیت ختم کر دی جائے گی اور اس کی سیٹ خالی قرار دے دی جائے گی۔  
الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف 30 روز میں سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جا سکے گی جس کا فیصل حتمی ہوگا۔

ماہرین کیا کہتے ہیں؟ 

قومی اسمبلی کے سابق ایڈیشنل سیکرٹری طاہر حنفی نے اردو نیوز کو بتایا کہ کسی بھی رکن کے خلاف انحراف کی کارروائی کے لیے آئین میں ایک شرط ہے کہ اس نے پارٹی فیصلے کے خلاف ووٹ دیا ہو۔
’جب یہ شرط لاگو ہو جائے تو پھر اسے ووٹ سے پہلے منحرف قرار نہیں دیا جا سکتا۔ سپیکر اگر اس کا ووٹ گنتی میں شامل نہیں کرتے تو رولنگ عدالت میں چیلنج ہو سکتی ہے۔ اس کا نتیجہ کچھ ہو سکتا ہے۔' 
انھوں نے بتایا کہ قواعد میں یہ بات تو موجود ہے کہ سپیکر ارکان کو ووٹ ڈالنے کا کہے گا لیکن یہ بات کہیں بھی موجود نہیں ہے کہ سپیکر ارکان کے ووٹوں کو حتمی گنتی میں شامل کرنے سے انکار کر سکتا ہے۔
’اس لیے جس نے یہ سپیکر کو یہ تجویز دی ہے اس کو چاہیے کہ وہ پہلے آرٹیکل 63 اے اور قومی اسمبلی قواعد میں ترمیم کرے۔ اس سے پہلے بھی ملک میں سیاسی بحران اور مشکلات آتی رہی ہیں اور اگر کسی نے ایسا نہیں سوچا تو اس کا مطلب ہے کہ اب بھی ایسا سوچنے سے پہلے ترامیم کی ضرورت ہے۔ موجودہ حالت میں آئینی طور پر کوئی مدد ملتی ہوئی نظر نہیں آتی۔'

الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف 30 روز میں سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جا سکے گی جس کا فیصل حتمی ہوگا (فوٹو: اے ایف پی)

ان کے مطابق کسی رکن کو منحرف قرار دے کر رکنیت سے محروم کرنے کا جو طریقہ کار ہے اس میں بھی پہلے رکن کو شو کاز نوٹس دینا شامل ہوتا ہے۔ ’اگر رکن نے ووٹ دیا ہی نہیں تو پارٹی پالیسی کی مخالفت کیسے ہوگئی اور اسی طرح رکنیت کے خاتمے کا فیصلہ الیکشن کمیشن نے کرنا ہے جس کا وقت ایک مہینہ مقرر کیا گیا ہے۔ اس ایک مہینے کے دوران بھی متعلقہ رکن کو کوئی اسمبلی میں انے سے نہیں روک سکتا۔' 
طاہر حنفی نے بتایا کہ 'کسی رکن کو ایوان میں ایوان میں داخلے سے روکنے کا اختیار کسی کے پاس نہیں ہے یہاں تک کہ جب ارکان اپنے مالیاتی گوشوارے جمع نہیں کراتے تو جب تک الیکشن کمیشن ان کی رکنیت معطل کرکے سپیکر کو آگاہ نہیں کرتا تب تک ارکان اجلاس میں شرکت کرتے رہتے ہیں اور سپیکر بھی ان کو ان کے اس حق سے محروم نہیں کرسکتا۔' 
خیال رہے کہ حکومتی ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے اٹارنی جنرل سے بھی ارکان کے ووٹ گنتی میں شامل نہ کرنے کے معاملے پر رائے مانگی ہے۔ جواب میں اٹارنی جنرل نے بھی واضح کیا ہے کہ آئینی طور پر ایسا ممکن نہیں ہے اور اگر حکومت ایسا کرے گی تو اس کے لیے مزید مشکلات کھڑی ہو جائیں گی۔ 

شیئر: