Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کافی شاپس میں کام کرنے والی سعودی خواتین جو ’روایات بدل رہی ہیں‘

مختلف شعبوں میں سعودی خواتین کا کردار نمایاں ہے۔ فوٹو اے ایف ہی
سعودی عرب کے بڑے شہروں میں قائم کافی ہاؤسز میں سعودی خواتین نے بھی بیرسٹا کی ذمہ داریاں نبھانا شروع کر دی ہیں جن کا کہنا ہے کہ کام پر لوگوں کا رویہ ان کی جانب خوشگوار ہوتا ہے۔
جدہ میں جیفری کیفے پر کام کرنے والی طیبہ ابراہیم نے عرب نیوز کو بتایا کہ انہیں کافی کا بہت زیادہ شوق ہے اور بالآخر ان کی  بیرسٹا بننے کی خواہش پوری ہو گئی، وہ اچھی کافی بنانے کے مزید راز جاننا چاہتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ سب سے بڑا چیلنج ان کے لیے کام کا دباؤ اور کسٹمرز کے ساتھ بات چیت کرنا تھا تاہم اس رکاوٹ کو بھی انہوں نے عبور کر لیا۔
کام پر پہلے دن کی یاد تازہ کرتے ہوئے طیبہ ابراہیم نے بتایا کہ ٹیم کے ارکان نے ان کے ساتھ بہت زیادہ تعاون کیا تھا اور انہوں نے بہت جلدی بیرسٹا کے لیے ضروری مہارت حاصل کر لی تھی۔
’اس سے مجھ میں شوق پیدا ہوا کہ روزانہ کچھ نیا سکیھوں۔‘
سعودی عرب کے مشرقی صوبے سے تعلق رکھنے والی انتصار حبیل نے سال 2019 میں امریکی کافی برانڈ سٹار بکس پر کام کرنا شروع کیا تھا جس کے بعد ان کی ترقی ہوئی اور انہیں سٹور منیجر بنا دیا گیا۔
انتصار حبیل کا کہنا ہے کہ انہیں کافی بہت پسند ہے اور کافی کی مختلف نمائشوں میں رضاکارانہ طور پر بھی کام کر چکی ہیں۔
’مجھے ابھی بھی یاد ہے کہ جب میں نے سٹار بکس سے پہلی مرتبہ کافی بینز کا بیگ خریدا اور اس سے کافی بنائی تھی۔ کافی بینز کو روسٹ کرنے سے متعلق کورسز بھی کیے اور نئے طریقے سیکھے۔‘
انتصار حبیل نے بتایا کہ جب انہوں نے سٹاربکس میں بیرسٹا کی جاب کے لیے درخواست جمع کروائی تو بعد میں نوکری ملنے پر انہیں کافی حیرت بھی ہوئی لیکن کمپنی کے اس اقدام سے انہیں محسوس ہوا کہ سٹار بکس صنفی تنوع اور مقامی ٹیلنٹ کے فروغ کو اہمیت دیتا ہے۔

سعودی عرب میں کافی یا قہوہ سب سے پسندیدہ مشروب ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

سٹار بکس پر بطور بیرسٹا ملازمت ملنے پر انتصار حبیل کے ملے جلے تاثرات تھے۔
’میں ڈری ہوئی تھی کیونکہ میں بہت زیادہ شائی ہوں اور اچانک مجھے اپنے ساتھیوں اور گاہکوں کے ساتھ ڈیل کرنا تھا۔ بلکہ یہ نوکری بھی اسی لیے کرنا چاہتی تھی کہ میں اپنی دماغی رکاوٹوں پر قابو پا سکوں اور کافی انڈسٹری کو سمجھنے پر اپنی توجہ مرکوز کر سکوں اور اس کمپنی میں اپنا مستقبل بنا سکوں۔’
اسلامک سٹڈیز میں گریجویٹ کرنے والی فاتین باحسین کا شمار بھی کافی کے شائقین میں ہوتا ہے جو چوکوچینو نامی ایک کیفے میں کام کرتی ہیں۔
گزشتہ چار سال سے بریسٹا کے طور پر کام کرنے والی فاتین باحسین کے خیال میں سعودی خواتین کو ریستوران میں کام کرتا ہوا دیکھ کر لوگوں کو خوشی محسوس ہوتی ہے۔
فاتین کا کہنا تھا کہ ماضی میں خواتین کا ریستورانوں میں کام کرنا قابل قبول نہیں تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ لوگ زیادہ مہذب ہوگئے ہیں اور خواتین کا ہر جگہ پر کام کرنا عام ہوتا جا رہا ہے۔
’میرے چند مرد گاہک بہت فخر کے ساتھ مجھے اپنی فیملیز سے متعارف کرواتے ہیں۔ یہ فیملیز اب میری باقاعدہ کسٹمر بن گئی ہیں۔‘

شیئر: