Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’کسی فلم کی نمائش روکنا فرد واحد نہیں بورڈ کا فیصلہ ہوتا ہے‘

حال ہی میں فلم ’آئی ویل میٹ یو دیئر‘ کی نمائش روکی گئی ہے (فوٹو: ارم پروین بلال ٹوئٹر)
دنیا نیٹ فلکس او ٹی ٹی پلیٹ فارمز پر تجربات کر رہی ہے لیکن پاکستان میں آج بھی سنسر بورڈ کی چُھری اور اس کا کوڈ آف کنڈکٹ فلموں کی نمائش کی راہ میں رکاوٹ بنتا دکھائی دے رہا ہے۔
حال ہی میں زی فائیو پر نمائش پذیر ہونے والی ویب سیریز ’مسٹر اینڈ مسز شمیم‘ چلائی گئی اس کنسیپٹ کو پہلے لوکل ٹی وی چینلز کے ساتھ ڈسکس کیا گیا لیکن ’موضوع بولڈ ہے‘ کہہ کر رد کر دیا گیا، پھر اسی موضوع کو کسی دوسرے ملک کے پلیٹ فارم پر چلایا گیا جہاں یہ ویب سیریز کافی سراہی جا رہی ہے۔
تو سوال یہ ہے کہ ہم کب تک کسی بھی فلم کی نمائش کو یہ کہہ کر روک سکتے ہیں کہ سنسر بورڈ کا کوڈ آف کنڈکٹ اجازت نہیں دیتا۔ اسے یقیناً جدید زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے کچھ تھوڑا بہت تبدیل کیا جانا چاہیے۔
فلم ’زندگی تماشا‘ کو دو سال قبل نمائش سے روکا گیا جبکہ بعدازاں ’آئی ول میٹ یو دیئر‘ اور ’جاوید اقبال‘ کو نمائش سے روکا گیا۔
ایسا وقت جب سینما اور فلمی صنعت کی بحالی بے حد ضروری ہے دنیا دیگر پلیٹ فامزپر جا چکی ہے ہم فلموں کی نمائش کو مختلف عذر پیش کرکے روک رہے ہیں۔موضوع کی مناسبت سے اردو نیوز نے سینٹرل بورڈ آف فلم سینسرز کے چیئرمین ارشد منیر سے گفتگو کی۔
ارشد منیر نے بتایا کہ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم فلم ’زندگی تماشا‘ کو سرٹیفیکیٹ دے چکے ہیں اور کافی عرصہ قبل دے چکے ہیں، جہاں تک فلم ’جاوید اقبال‘ کی بات ہے تو ہم نے کبھی اس کو نمائش سے نہیں روکا۔ ہمارے پاس جب یہ فلم آئی تو ہم نے اس کو ری ویو کرنا تھا۔ اس سے قبل پنجاب اور سندھ کے سنسر بورڈز نے اس کو پاس کر دیا تھا اور بعد میں اپنا فیصلہ واپس بھی لے لیا، لہٰذا ان کے اس فیصلے کا ہم سے کوئی تعلق نہیں۔
ہمارا ایک کوڈ آف کنڈکٹ ہے ہمیں اسی کے اندر رہتے ہوئے کام کرنا ہے۔ فلم کی نمائش کو روکنا یا نہ روکنا کسی ایک فرد کا ذاتی فیصلہ نہیں ہوتا بلکہ پورے بورڈ کے ممبران کا فیصلہ ہوتا ہے اور یہ ممبران سول سوسائٹی سے ہوتے ہیں یہ سب مل کر فیصلہ کرتے ہیں کہ کون سی فلم کوڈ آف کنڈکٹ کے تحت نمائش کے لیے پیش کی جا سکتی ہے اور کون سی نہیں۔
نیٹ فلکس اور او ٹی ٹی پلیٹ فارمز بالکل موجود ہیں، اگر کوئی وہاں کچھ جا کر دیکھنا چاہتا ہے تو دیکھے ہم نے روکا تو نہیں ہے ہم تو اپنی معاشرتی اقدار کو مد نظر رکھتے ہوئے فلم کو نمائش کی اجازت دیں گے۔

فلم ’جاوید اقبال‘ کے ڈائریکٹر ابوعلیحہ کا کہنا ہے کہ پہلے فلم کو پاس کر دیا گیا تھا بعد میں فیصلہ بدلا گیا (فوٹو: ارم پروین بلال ٹوئٹر)

ہمارے ہاں کبھی کسی موضوع کو نہیں روکا گیا ہر موضوع پر فلم بنانے کی اجازت ہے بس دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ پیش کرنے کا انداز کیا ہے جس انداز سے پیش کیا جا رہا ہے اس سے عوام کو کیا میسج جا رہا ہے۔
فلم ’جاوید اقبال‘ میں کوئی میسج نہیں ہے ایک ظالم انسان کو بجائے یہ دکھانے کے کہ وہ اپنے کیے پر شرمند ہو، اسے گلیمرائز کیا گیا ہے۔
 ایک سوال کے جواب میں ارشد منیر نے کہا کہ ’کوڈ آف کنڈکٹ کو ریوائز کرنے کی یقیناً گنجائش موجود ہے اور ہونی بھی چاہیے۔ ہم ہر روز کوئی نہ کوئی فلم سنسر کر رہے ہیں، انڈیا کی نو دس پنجابی فلموں کو نمائش کی اجازت دی ہے لیکن آپ دیکھیں کہ سینما امپورٹڈ فلموں کے سر پر چل رہا ہے، ہم تو سینما کی بحالی کے لیے جتنا کام کر سکتے ہیں کر رہے ہیں لیکن لوکل پروڈیوسر کو فلمیں بنانی چاہییں۔

’جاوید اقبال‘ کے ڈائریکٹر نے فلم کی نمائش روکنے کے خلاف ہائیکورٹ سے رجوع کیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

نمائش سے روکی جانے والی فلم جاوید اقبال کے ڈائریکٹر ابو علیحہ کہتے ہیں کہ یہ تو ایک لطیفہ ہی ہے کہ فلم میں دیکھنے والوں کے لیے کوئی میسج نہیں ہے۔ سنسر بورڈ کو فلم میں اگر کوئی چیز غلط لگ رہی ہو تو اس کو روکا جا سکتا ہے یہ اختیار یقیناً سنسر بورڈ کے پاس ہے لیکن سنسر بورڈ والے کسی بھی فلم میکر کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ کس طرح کی فلم بنائے۔
ان کے مطابق ’پوری دنیا میں ایسا نہیں ہوتا کہ فلم بنانے سے پہلے سنسر بورڈ یا گورنمنٹ کو سکرپٹ دکھایا جائے، پنجاب اور سندھ سنسر بورڈز نے ہماری فلم کو پاس کر دیا لیکن بعد میں اپنے فیصلے پر کھڑے نہیں رہ سکے۔ وفاقی سنسر بورڈ نے تو سیدھا ہی کہہ دیا کہ ان کو فلم سمجھ میں ہی نہیں آئی، چلیں اتنا کہنا ان کا حق ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پنجاب سنسر بورڈ نے فلم کو پاس کیا لیکن پنجاب گورنمنٹ نے اس کو نمائش سے روک دیا کیوں روکا یہی جاننے کے لیے ہم ہائیکورٹ چلے گئے۔‘

’آئی ویل میٹ یو دیئر‘ 11 ستمبر کے حملوں کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کے تناظر میں بنائی گئی ہے (فوٹو: ہالی وڈ رپورٹر)

ان کا مزید کہنا ہے کہ ’ یہ ایک بچگانہ تصور ہے کہ ایک آدمی اپنے جرم پہ شرمندہ نہیں، اگر اس نے شرمندہ ہونا ہوتا تو وہ پہلے قتل کے بعد ہوتا، دوسرے یا تیسرے کے بعد ہوتا ۔مسئلہ سارا یہ ہے کہ سنسر بورڈ میں ہمارے ہاں سیاسی بنیادوں پر بھرتیاں ہوتی ہیں، جن کو فلم کی اے بی سی بھی نہیں پتا وہ فلموں پر فیصلے دے رہے ہوتے ہیں ۔رہی بات فلم کے سمجھ نہ آنے کی تو کورٹ میں اس بیانیے کی دھجیاں اڑ جائیں گی۔‘
فلم ’آئی ول میٹ یو دیئر‘ امریکہ میں 11 ستمبر کے حملوں کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کے تناظر میں بنائی گئی ہے اس کو بھی نمائش سے روک دیا گیا ہے فلم کی ڈائریکٹر ارم پروین بلال کا سوال ہے کہ’جو فلم مسلمانوں کی درست عکاسی اور منفی تاثر ختم کرنے کے لیے بنائی تھی، اسے کس طرح سے مسلمانوں کے خلاف قرار دے کر نمائش سے روکا جا سکتا ہے۔‘

شیئر: