Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب میں پاکستانیوں کا ڈیٹا جمع کرنے کےلیے رجسٹریشن مہم پر غور

سفیر پاکستان کا کہنا ہے کہ ڈیٹا جمع کرنے میں کمیونٹی کا تعاون درکار ہے( فوٹو اردونیوز)
سعودی عرب میں پاکستان کے نئے سفیر امیر خرم راٹھور نے کہا ہے کہ ’سعودی عرب میں موجود پاکستانیوں کا ڈیٹا جمع کرنے کی تجویز ہے۔ اس حوالے رجسٹریشن مہم چلانے پر غور کیا جا رہا ہے‘۔
مملکت میں پاکستان کے نئے سفیر نے چارج سنبھالنے کے بعد جدہ قونصلیٹ میں پہلی مرتبہ صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو اور کمیونٹی کے اجتماع سے خطاب کیا ہے۔
اردونیوز کے ایک سوال پرانہوں نے کہا کہ ’مملکت میں پاکستانیوں کو اقامے، ہروب اور دیگر جو مسائل درپیش ہیں ان کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے پاس کوئی ڈیٹا نہیں ہے۔ مملکت کے کس علاقے میں کتنے پاکستانی اور کن ملازمتوں پر ہیں، اس بارے میں جامع معلومات کا فقدان ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ’ ڈیٹا جمع کرنے میں کمیونٹی کا تعاون درکار ہے، ڈاکٹرز، انجینیئرز اور دیگر گروپ اس سلسلے میں موثر کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستانی اداروں اور سعودی حکومت سے بھی مدد لینے کا سوچا جا رہا ہے۔‘
’چاہتے ہیں کہ ہمیں پتہ چلے پاکستان سے ہر روز یا ہر ماہ کتنے پاکستانی ورکزسعودی عرب آئے، مملکت میں کہاں ہیں اور کیا کام کرتے ہیں۔ ان کا قانونی سٹیٹس کیا ہے‘۔
 ایک سوال پر سفیر پاکستان نے کہا کہ ’سعودی عرب کے ساتھ ہر سطح پر بہترین تعلقات ہیں تاہم اقتصادی تعلقات بڑھانے پر زیادہ فوکس ہے۔ اس حوالے سے کام کیا جا رہا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان سپریم کوآرڈینیشن کونسل قائم کی گئی تھی۔ اس کے سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی تین بنیادی پلر ہیں۔ زیادہ فوکس اقتصادی تعلقات پر ہے۔ کورونا وبا کے باعث کچھ ڈرا بیک ہوا ہے تاہم اب دوبارہ کام شروع کیا جا رہا ہے‘۔
واضح رہے کہ کونسل کا مقصد دونوں ممالک کے دو طرفہ تعاون کو بہتر اور ہموار کرنا ہے تاکہ سرمایہ کاری کے معاہدے طے پائے تھے ان کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا جاسکے۔
سفیر پاکستان کا کہنا تھا کہ ’سعودی عرب نے پاکستان میں ریفائنری منصوبے کا اعلان کیا تھا وہ اب بھی بر قرار ہے، اس میگا پراجیکٹ پر دوبارہ مذاکرات ہو رہے ہیں‘۔

 اس وقت مملکت کی جیلوں مں دو ہزار 100 پاکستانی موجود ہیں( فوٹو اردونیوز)

انہوں نے کہا کہ ’ریفائنری کہاں اور کس سکیل پر لگے گی اس پر بات ہورہی ہے، اس حوالے سے تجاویز ہیں جو جلد سامنے لائی جائیں گی‘۔
یاد رہے فروری 2019 میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے دورہ  پاکستان  کے دوران سعودی عرب کی جانب سے 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدوں پر دستخط کیے گئے تھے، جن میں ریفائنری لگانے کا معاہدہ شامل تھا۔
ایک اور سوال پرانہوں نے کہا’ سعودی عرب کی جیلوں میں موجود پاکستانی قیدیوں کی منتقلی کے معاہدے پر جلد عملدرآمد شروع ہوگا۔ اس وقت مملکت کی جیلوں مں دو ہزار 100 پاکستانی موجود ہیں‘۔ 
 معاہدے پرعملدرآمد میں تاخیر کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ’ایشو یہ تھا کہ جن قیدیوں کو منتقل کیا جانا ہے یا جنہیں معافی دی گئی ہے اس میں منشیات کے کیسز میں ملوث افراد شامل ہوں گے یا نہیں، اب یہ معاملہ حل ہو گیا ہے۔ معاہدے کے تحت پاکستانی قیدی اپنی باقی سزا پاکستان میں کاٹ سکیں گے‘۔
 سعودی کابینہ نے پاکستان کے ساتھ قیدیوں کی منتقلی کے معاہدے کی منظوری دی تھی جس کے بعد سعودی وزیر داخلہ کے حالیہ دورہ پاکستان میں معاہدے پر دستخط کی گئے تھے۔
سفیر پاکستان نے اپنی ترجیحات بتاتے ہوئے کہا کہ’ کوشش ہے کہ کوئی بڑا کام کرکے جاوں۔ ہرسفیر کی خواہش ہوتی ہے کہ کچھ بہتر کام کرے تاکہ مقیم پاکستانی اسے اچھے الفاظ میں یاد کریں‘۔

اقتصادی تعلقات بڑھانے پر زیادہ فوکس ہے۔ اس حوالے سے کام کیا جا رہا ہے(فوٹو ٹوئٹر)

انہوں نے کہا کہ’ اپنی بساط کے مطابق کام کروں گا۔ ترجیح ہے کہ کیمونٹی کے فائدے کے لیے کام کیا جائے۔ میرے نزدیک یہ صرف نوکری نہیں خدمت خلق ہے۔ اس کا اجر مجھے کہیں اور کسی اور شکل میں ملے گا‘۔
انہوں نے کہا کہ’ سعودی معاشرہ بہت تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ ممکت میں اکانومی پر زیادہ فوکس ہے۔ ان کی کوشش ہے کہ تمام کاروبار کو ٹیکس فولڈ میں لائیں اور یہ سلسلہ رکتا نظر نہیں آرہا‘۔
انہوں نے کہا کہ ’سعودی عرب پاکستان کا قریب ترین دوست ہے اور ہر وقت شانہ بشانہ کھڑا نظر آیا ہے۔‘
امیرخرم راٹھور نے پاکستانی کمیونٹی سے کہا کہ’ سعودی قوانین کا احترام کریں۔ کمیونٹی تجارتی تعلقات کے فروغ میں بھی اپنا کردارادا کرے۔ وزارت خارجہ کی ذمہ داری پاکستانی کمیونٹی کو سہولتیں فراہم کرنا ہے اور اس کے لیے مجھے وزیراعظم نے خصوصی ہدایت دی ہیں‘۔
جدہ میں قونصلیٹ کی نئی عمارت کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ’ہمیں ہر چیز کو دیکھ کر چلنا ہے، نئی عمارت تعمیر ہوگی لیکن اس میں تھوڑا وقت لگے گا‘۔
سفیر پاکستان نے اقامہ، ہروب اور پاکستانی کمیونٹی کو درپیش تعلیمی اور دیگر مسائل کے حوالے سے سفارتخانے اور قونصلیٹ کی کوششوں سے آگاہ کیا اور اس کے حل کے لیے تجاویز بھی طلب کیں۔

شیئر: