Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تحریک عدم اعتماد، سیاست کے اہم مرحلے میں لاہور کس کے ساتھ ہوگا؟ 

حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی دعوے دار ہیں کہ لاہور ان کے ساتھ ہے (فائل فوٹو: ٹوئٹر)
وزیراعظم عمران خان کے خلاف پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کی کارروائی سے پہلے حکومت اور اپوزیشن اپنی اپنی سیاسی طاقت دکھانے پر بضد ہیں۔
عمران خان نے اسلام آباد کے پریڈ گراؤنڈ پر 27 مارچ کوعوامی اکٹھ کا اعلان کیا ہے تو اپوزیشن پارٹیوں نے بھی 26 مارچ سے اسلام آباد کی طرف عوامی مارچ کا اعلان کررکھا ہے۔ 
پاکستان کی سیاست میں ہمیشہ یہ کہا جاتا ہے کہ جب لاہور سے لوگ نکلتے ہیں تو وہ مرحلہ فیصلہ کن ہوتا ہے۔ ججز بحالی تحریک اس کی ایک مثال ہے، لیکن اب دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی دعوے دار ہیں کہ لاہور ان کے ساتھ ہے۔ 
جمعے کو لاہور کی تقریباً سبھی سڑکوں پر حکمراں جماعت کے جھنڈے سٹریٹ لائٹس کے پولز پر لہرا رہے ہیں۔ جگہ جگہ اسلام آباد جلسے کے بینرز اور پینا فلیکسز نمایاں ہیں۔
تحریک انصاف کے دفاتر میں بھی گہما گہمی دکھائی دے رہی ہے۔ ایسے دکھائی دیتا ہے کہ حکومت نے بہت ہی طاقت سے اس جلسے کی تشہیر کی ہے، لیکن اس کے باوجود شہر میں ایک پراسرار سی خاموشی ہے۔ 
دوسری طرف لاہور کو اپنا سیاسی قلعہ بتانے والی مسلم لیگ ن کی اپنے لانگ مارچ کی تیاریاں کم سے کم تشہیر کی حد تک حکومت کے مقابلے میں بہت ہی کم دکھائی دے رہی ہیں۔
صرف ماڈل ٹاؤن میں پارٹی کے دفتر کے باہر اور اِکا دُکا سڑکوں پر لانگ مارچ کے حوالے سے نعرے درج ہیں۔ 

مسلم لیگ ن کی وہ تیاریاں نہیں ہیں جو ان کے اپنے کارکن توقع کررہے ہیں (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

حکمراں جماعت کے اشتہارات پر مذہبی مواد اور صحت کارڈ نمایاں ہیں جبکہ مسلم لیگ ن کے بینرز مہنگائی کے خلاف دکھائی دیتے ہیں۔
جمعے کو ہی مسلم لیگ ن کے رہنماؤں مریم نواز اور حمزہ شہباز نے ان کارکنوں کو پارٹی آفس بلایا جن کے ذمہ لانگ مارچ کی تیاریاں ہیں۔ 
اڑھائی سے تین سو کے لگ بھگ ان کارکنان سے دونوں رہنماؤں نے تابڑ توڑ خطاب کیے، تاہم ایک بات عیاں تھی کہ مسلم لیگ ن کی وہ تیاریاں نہیں ہیں جو ان کے اپنے کارکن توقع کر رہے ہیں۔
ایک کارکن سے سوال کیا کہ لوگ اتنے کم کیوں بلائے ہیں تو ان کا جواب تھا ’بھائی جان ہوسکتا ہے لانگ مارچ کی ضرورت نہ پڑے، اگر مارچ نکلا بھی تو گوجرانوالہ جانے تک حکومت ختم ہوچکی ہوگی۔ اس لیے بھی تیاریاں کم ہی ہیں۔‘
لیکن ہفتے کو لاہور سے شروع ہونے والے اس لانگ مارچ کے لیے آرام دہ کنٹینر بہرحال بنوا لیا گیا ہے اور دوپہر دو بجے ماڈل ٹاون دفتر سے ہی اس کا آغاز ہوگا۔ تحریک انصاف اور ن لیگ کی لاہور سے لوگوں کو نکالنے کی تیاریوں کے حوالے سے سیاسی مبصرین کا کہنا ہے اپوزیشن کو زیادہ تشہیر کی ضرورت اس لیے بھی نہیں کہ سیاسی ہواؤں کے رخ اب خاصے بدل چکے ہیں۔
ایک دہائی سے دھرنوں اور لانگ مارچ کی رپورٹنگ کرنے والے ایکسپریس نیوز لاہور کے بیورو چیف محمد الیاس نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں نے پہلی دفعہ دیکھا ہے کہ ن لیگ مارچ کا اعلان کرنے کے باوجود اپنی پوری طاقت صرف نہیں کر رہی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ان کو یقین ہے کہ محض ایک کال پر ہی لوگ نکل آئیں گے۔‘

عمران خان نے 27 مارچ کو اسلام آباد میں جلسے کا اعلان کیا ہوا ہے۔ (فائل فوٹو: اے پی)

انہوں نے کہا کہ ’مسلم لیگ ن کے ارکان مریم نواز کو بھی مجمعے کی فعال سیاستدان سمجھتے ہیں جبکہ گراس روٹ لیول پر تنظیم کو مضبوط کرنے والے حمزہ بھی ساتھ ہیں، اس لیے ن لیگ لوگوں کی شرکت کے حوالے سے زیادہ فکر مند دکھائی نہیں دیتی۔‘
محمد الیاس کا کہنا ہے کہ ’مولانا کے کارکن اور حکومت اور اپوزیشن کے ایک دوسرے کے لیے رکھے گئے سرپرائز کی وجہ سے بھی ن لیگ کا فوکس لانگ مارچ کی تیاریوں سے زیادہ آگے آنے والے حالات پر ہے۔‘
اینکر پرسن اجمل جامی کا کہنا ہے کہ ’ایک بات ذہن میں رکھیں کہ اپوزیشن یہ لانگ مارچ محض وزیراعظم کی جلسے کی کال کو بیلنس کرنے کے لیے کر رہی ہے۔ یہ لانگ مارچ حکومت گرانے کے لیے نہیں ہو رہا نہ ہی اپوزیشن نے اس کی شروعات کی ہے۔‘
’ان کی ساری طاقت جوڑ توڑ میں صرف ہو رہی ہے۔ جبکہ حکومت اپنی ساری طاقت سڑکوں اور گلی کوچوں میں دکھانا چاہ رہی ہے۔ اس لیے بھی دونوں طرف کی تیاریوں اور ظاہری خدوخال میں فرق ہے۔‘

شیئر: