Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’حکومت اور اپوزیشن آپس میں لڑ رہی ہیں اور معاملہ ہمارے گلے ڈالا جا رہا ہے‘

عدم اعتماد پر ووٹنگ صرف وزیراعظم کے استعفے پر ہی روکی جا سکتی ہے۔ (فوٹو: اردو نیوز)
قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ پر لیے گئے ازخود نوٹس کی سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ میں شامل جسٹس جمال مندوخیل نے کہا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن آپس میں لڑ رہی ہے اور معاملہ عدالت کے گلے میں ڈالا جا رہا ہے۔
اس سے قبل چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’سپریم کورٹ نے صرف آئین و قانون کو دیکھنا ہے۔ سپریم کورٹ خارجہ پالیسی یا ریاستی پالیسی کا تعین نہیں کر سکتی۔‘
منگل کو سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے تحریک عدم اعتماد پر ہونے والی قومی اسمبلی اجلاس کی کارروائی کا ریکارڈ بھی طلب کیا۔
دوسری جانب درخواست گزاروں کے وکلا نے دلائل میں رولنگ کو کالعدم قرار دے کر اسمبلی بحال کرنے کی استدعا کی گئی۔
اس دوران پیپلز پارٹی کے وکیل رضا ربانی نے کہا کہ ’عدالت مبینہ سازشی خط طلب کرکے قومی سلامتی کمیٹی کی کارروائی کا جائزہ لے۔‘
واضح رہے کہ سپیکر کی رولنگ کے حوالے سے ازخود نوٹس کیس اور مختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے دائر درخواستوں کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ کر رہا ہے۔ 
سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ ‏پنجاب اسمبلی اور ہوٹلز میں جو ہو رہا ہے اس کی عدالت انکوائری کرائے۔
اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریماکس دیے کہ حکومت اور اپوزیشن آپس میں لڑ رہی ہے اور معاملہ ہمارے گلے میں ڈالا جا رہا ہے۔
عدالت میں درخواست گزاروں کے وکلا کے دلائل مکمل ہونے پر سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی۔ عدالت نے تحریک انصاف کے وکیل بابر اعوان اور سپیکر کے وکیل نعیم بخاری کو کل دلائل دینے کی ہدایت کی۔

کورٹ روم میں نئی پابندیاں

منگل کو سپریم کورٹ میں سماعت کے موقع پر رش زیادہ ہونے کے باعث صحافیوں اور جونیئر وکلا کو کمرہ عدالت نمبر ایک میں جانے سے روک دیا گیا۔
سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے ساتھ آنے والے لوگوں کو کمرہ عدالت میں جانے سے منع کر دیا گیا۔ کمرہ عدالت میں صرف سیاسی جماعتوں کے رہنما اور وکلا کو جانے کی اجازت دی گئی۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز کمرہ عدالت نمبر ایک میں زیادہ رش کی وجہ سے کم لوگوں کو کمرہ عدالت میں جانے کی اجازت دی گئی تھی۔

فریق بننے کی درخواستیں نہیں سن رہے: چیف جسٹس

سماعت کا آغاز ہوا تو افشاں غضنفر ایڈووکیٹ نے مقدمے میں فریق بننے کی استدعا کر دی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ فریق بننے کی درخواستیں نہیں سن رہے۔ افشاں غضنفر ایڈووکیٹ نے کہا کہ ’سارا مسئلہ جس کی وجہ سے بنا اس کو بلایا جائے۔ امریکہ میں سابق پاکستانی سفیر اسد مجید جس نے لیٹر لکھا ان کو بلائیں۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’آپ بیٹھ جائیں ہم نے سیاسی جماعتوں کے وکلا کو سننا ہے۔‘ 
اس دوران ایڈووکیٹ ذوالفقار بھٹہ نے کیس کی سماعت سے پہلے خط کے معاملے کی تحقیقات کی استدعا کی تو عدالت نے ذوالفقار بھٹہ کو بھی روسٹرم چھوڑنے کی ہدایت کردی۔‘

سسٹم نے اپنا از خود غیر قانونی متبادل تیار کیا: رضا ربانی

 پیپلز پارٹی کے رہنما رضا ربانی نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا میڈیا میں بیان آیا ہے کہ تین ماہ میں انتخابات ممکن نہیں۔ کوشش ہے کہ آج دلائل مکمل ہوں اور مختصر فیصلہ آ جائے۔
اس پر چیف جسٹس نے کہ ’ہم بھی جلدی چاہتے ہیں لیکن تمام فریقین کا موقف سن کر فیصلہ کریں گے۔‘
رضا ربانی نے اپنے دلائل میں کہا کہ ’عدالت نے دیکھنا ہے کہ پارلیمانی کارروائی کو کس حد تک استثنی ہے۔ جو کچھ ہوا اس کو سویلین مارشل لا ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ سسٹم نے ازخود ہی اپنا متبادل تیار کر لیا جو غیرآئینی ہے۔ 28 مارچ کو تحریک عدم اعتماد کی منظوری ہوئی مگر سماعت ملتوی کر دی گئی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’28 مارچ کو تحریک عدم اعتماد کی منظوری ہوئی مگر سماعت ملتوی کر دی گئی۔ ڈپٹی سپیکر نے رولنگ پڑھی اور تمام ارکان کو آرٹیکل پانچ کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا۔ ڈپٹی سپیکر نے یہ بھی اعلان نہیں کیا تھا کہ تفصیلی رولنگ جاری کریں گے۔ ڈپٹی سپیکر نے کس بنیاد پر رولنگ دی کچھ نہیں بتایا گیا۔‘
’ڈپٹی سپیکر کے سامنے عدالتی حکم تھا نہ ہی سازش کی کوئی انکوائری رپورٹ تھی۔ ڈپٹی سپیکر نے تحریری رولنگ دیکر اپنی زبانی رولنگ کو غیر موثر کر دیا  ڈپٹی سپیکر کی رولنگ آئین کے خلاف ہے۔‘

 رضا ربانی نے کہا کہ ’عدالت مبینہ سازشی خط طلب کرکے قومی سلامتی کمیٹی کی کارروائی کا جائزہ لے۔‘ (فائل فوٹو: اے پی پی)

رضا ربانی نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’آئین میں وزیراعظم کو ہٹانے کا طریقہ کار درج ہے۔ وزیراعظم استعفی دے سکتے ہیں۔ اگر اکثریت کھو دیں تو تحریک عدم اعتماد پر اعتماد کا ووٹ حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اگر قرارداد پارلیمنٹ میں آ جائے تو وزیراعظم اسمبلیاں تحلیل نہیں کر سکتے۔‘
انھوں نے موقف اپنایا کہ ’عدم اعتماد پر ووٹنگ صرف وزیراعظم کے استعفے پر ہی روکی جا سکتی ہے۔ صدر مملکت ازخود بھی وزیراعظم کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ سکتے ہیں۔ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ تک وزیراعظم اسمبلی بھی تحلیل نہیں کر سکتے۔ اگر تحریک عدم اعتماد لانے والے ممبران اسے واپس لے لیں تو ایسا ہو سکتا ہے۔ جب تحریک عدم اعتماد ٹیبل ہو جائے تو اس پر ووٹنگ کرانا ضروری ہے۔‘

’عدالت سازشی خط طلب کرے‘

رضا ربانی نے کہا کہ ’آرٹیکل 69 کے تحت پارلیمانی کارروائی کو استثنیٰ حاصل ہوتا ہے۔ سپیکر کارروائی چلانے کیلئے جو فیصلہ کرے اسے تحفظ حاصل ہوگا۔ آرٹیکل 5 کی خلاف ورزی اور رولنگ کا آپس میں کوئی تعلق نہیں بنتا۔ ڈپٹی سپیکر نے آرٹیکل 5 کی تشریح کرکے ارکان پر اطلاق کردیا۔ سپیکر کی رولنگ کا آرٹیکل 95(2) کے تحت جائزہ لیا جا سکتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’کیا سپیکر عدالتی فائیڈنگ کے بغیر رولنگ دے سکتے تھے۔ وزیراعظم نے اپنے بیان میں تین آپشنز کی بات کی۔ تین آپشن والی بات کی اسٹیبلشمنٹ نےتردید کی۔ یہ عدالت مبینہ سازشی خط طلب کرے اور قومی سلامتی کمیٹی کی درخواست دیکھے۔ اس کی جوڈیشل کمیشن بنا کر تحقیقات کی جا سکتی ہیں۔ عدالت رولنگ کالعدم قرار دے کر اسمبلی بحال کرے۔‘

عدالت نے اسمبلی کارروائی کا ریکارڈ طلب کر لیا

رضا ربانی کے دلائل ختم ہوئے تو مسلم لیگ ن کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کا آغاز کیا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ’وکلا کوشش کریں کہ کیس جلدی مکمل کریں تاکہ کوئی فیصلہ دیا جا سکے۔‘
مخدوم علی خان نے اپنے دلائل میں کہا کہ ’عدالت تحریکِ عدم اعتماد کی قرارداد کو دیکھے۔ تحریکِ عدم اعتماد وزیراعظم کو ہٹانے کیلئے جمع کرائی گئی۔ تحریک میں موقف اختیار کی گیا کہ وزیراعظم اکثریت کھو چکے ہیں۔
انہوں نے کہا ’شہباز شریف نے اسمبلی کے رولز آف بزنس کے تحت تحریک عدم اعتماد پیش کی۔ سپیکر نے قرارداد کے لیے رائے لی تو 161 سے زائد ممبران عدم اعتماد کے حق میں کھڑے ہوئے۔ قرارداد پیش کرنے کی اجازت ڈپٹی سپیکر نے دی۔ پھر 31 مارچ کو بغیر کسی کارروائی کے اجلاس تین اپریل تک ملتوی کیا گیا۔‘
اس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ 31 مارچ کو التوا کیسے کیا گیا؟ سپیکر کی جانب سے کوئی(موجود) ہے؟ ہمیں اجلاس کی کارروائی کے نوٹس دیے جائیں۔ سپیکر کا ریکارڈ پیش کیا جائے۔‘ 
اس موقعے پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ’تحریک عدم اعتماد پر کب کیا ہونا ہے یہ رولز میں ہے۔ آئین میں نہیں۔‘

چیف جسٹس نے کہا ’ہمیں اجلاس کی کارروائی کے نوٹس دیے جائیں۔ سپیکر کا ریکارڈ پیش کیا جائے۔‘ (فائل فوٹو: اے پی پی)

مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ ’رولز بھی آئین کے تحت ہی بنائے گئے ہیں۔‘
جسٹس منیب اختر نے دوبارہ سوال کیا کہ ’ووٹنگ نہ ہونا آئین کی خلاف ورزی کیسے ہوگئی؟ آئین کے مطابق سات دن میں عدم اعتماد پر ووٹنگ ضروری ہے۔ اگر کسی وجہ سے ووٹنگ آٹھویں دن ہو تو کیا غیرآئینی ہوگی؟‘
مخدوم علی خان نے جواب دیا ’آرٹیکل 95 بذات خود واضح ہے۔ جو مکمل پروسیس فراہم کرتا ہے۔‘
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ’آرٹیکل 91 اور 95 میں مکمل طریقہ موجود ہے۔ کیا اس میں قواعد کو تحفظ دیا گیا ہے؟‘
مخدوم علی خان نے کہا کہ ’اگر پروسیجر میں کوئی بے ضابطگی ہو تو بھی غیر آئینی اقدام نہیں کیا جا سکتا۔  ووٹنگ کا عرصہ تین سے سات دن تک کا ہے۔ بے ضابطگی کی بنیاد پر اس عرصے کو سات دن سے زیادہ نہیں بڑھایا جاسکتا۔‘ 
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ’کیا آرٹیکل 91 اور 95 میں بے ضابطگی پر آرٹیکل 69 تحفظ دیتا ہے؟‘
مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ ’آئین واضح ہے، آئین میں لکھا ہے کہ عدم اعتماد اکثریت سے پاس ہونی چاہیے۔ اگر تشریح کا معاملہ ہو تو پھر آرٹیکل 69 آڑے نہیں آتا۔ بلوچستان اسمبلی کے معاملے پر عدالت فیصلہ دے چکی۔ 1999 میں بلوچستان اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد دوبارہ بحال ہوئی۔‘
’جسٹس منیب اختر نے دوبارہ سوال کیا کہ ’ووٹنگ نہ ہونا آئین کی خلاف ورزی کیسے ہوگئی؟ آئین کے مطابق سات دن میں عدم اعتماد پر ووٹنگ ضروری ہے۔ اگر کسی وجہ سے ووٹنگ آٹھویں دن ہو تو کیا غیرآئینی ہوگی؟‘
مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ ’آٹھویں دن ووٹنگ غیرآئینی نہیں ہوگی۔ مقررہ مدت کے بعد ووٹنگ کی ٹھوس وجہ ہو تو آرٹیکل 254 کا تحفظ حاصل ہوگا۔‘ 

جسٹس گلزار کو نگران وزیراعظم بنانا اچھی روایت نہیں: وکیل ن لیگ

ن لیگ کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ 'بین القوامی اصول طے ہے کہ پارلیمان کے استحقاق کا تعین عدالت کرتی ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے کیس کا حوالہ دینا چاہتا ہوں۔ بدنیتی وہ ہوتی ہے جہاں جان بوجھ کر کسی کو نقصان پہنچانے کا مقصد ہو۔ سپیکر کی رولنگ حقیقی اور قانونی طور پر بدنیتی کے زمرے میں آتی ہے۔ 
 وکیل نے کہا کہ سابق چیف جسٹس گلزار احمد کے نگران وزیراعظم بنائے جانے پر ن لیگ کو اعتراض ہے۔ سابق چیف جسٹس کو نگران وزیراعظم بنانے کی تجویز اچھی روایت نہیں۔ 

'آپ آپس میں لڑ رہے ہیں. آپ سب کچھ ہمارے اوپر ڈال رہے ہیں'

وقفے کے بعد سماعت کا آغاز ہوا تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ 'ہم آرٹیکل 184 کے تحت مقدمے کو سن رہے ہیں۔ کیا پنجاب میں وزیراعلٰی کے انتخاب کے لیے کل ووٹنگ ہو رہی ہے؟ 
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ صوبائی اسمبلی کے ارکان کو غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا گیا ہے۔عدالت اس معاملے کو بھی دیکھے۔ جسٹس مظہر عالم نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے کہا کہ 'ووٹنگ کرا دیں سب ٹھیک ہو جائے گا۔'
جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ 'آپ آپس میں لڑ رہے ہیں. آپ سب کچھ ہمارے اوپر ڈال رہے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پنجاب کے حوالے سے ہم کوئی حکم نہیں دیں گے تاہم چیف جسٹس نے کہا کہ یہ معاملہ کل دیکھیں گے۔ ہم کل دوران سماعت اپ ڈیٹ لیں گے۔ 
عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے استفسار کیا کہ کیا پنجاب اسمبلی کا اجلاس قانون کے مطابق ہوگا؟ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ یقین ہے کہ پنجاب اسمبلی کی کاروائی قانون کے مطابق چلائی جائے گی۔ 

کوشش ہے کل فیصلہ سنائیں: چیف جسٹس،  جلدی نہیں: جسٹس اعجازالاحسن

سندھ ہائیکورٹ بار کے صدر بیرسٹر صلاح الدین نے اپنے دلائل میں کہا کہ سپیکر کسی صورت آئین کی تشریح کا اختیار استعمال نہیں کر سکتے۔ 
نیئر بخاری کے وکیل شہباز کھوسہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ 'جس قسم کے حالات بنائے گئے ہیں غیرآئینی اقدام ہو سکتا ہے. مجموعی طور پر مخدوم علی خان کی دلائل اپنا رہا ہوں۔ '
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آگاہ کریں کہ پارلیمان کس قسم کی تحریکیں منظور کر سکتی ہے۔ تمام تحاریک کا موازنہ کرنا چاہتے ہیں۔ 
پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان روسٹم پر آئے اور کہا کہ کل باضابطہ دلائل کا آغاز کروں گا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’اگر تمام وکلا کل دلائل مکمل کریں تو پرسوں مجھے موقع دیا جائے۔ یہ میری زندگی کا اہم ترین کیس ہے۔ قومی اہمیت کا کیس ہے عدالت کی تفصیلی معاونت کرنا چاہتا ہوں۔‘
چیف جسٹس نے کوشش ہے کہ کل فیصلہ سنا دیں۔ نگران حکومت کا قیام اس کیس کی وجہ سے رکا ہوا ہے، کوشش ہے کہ کل فیصلہ سنا دیں۔ 
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ وقت کم ہے لیکن جلد بازی میں بھی فیصلہ نہیں کرنا چاہتے۔
اس موقع پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ 'نواز شریف کیس میں اسمبلی تحلیل ہوئی اور نگران حکومت بن چکی تھی۔ عدالت نے نوازشریف کیس میں ایک ماہ بعد فیصلہ سنایا تھا۔'

شیئر: