Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پنجاب کا سیاسی بحران: کیا اس وقت صوبے میں دو وزیراعلیٰ ہیں؟

آئینی اور قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ پنجاب میں اس سے پہلے ایسی صورت حال کا سامنا کبھی نہیں کرنا پڑا تھا۔ (فوٹو: ٹوئٹر)
پاکستان کا صوبہ پنجاب عملی طور پر یکم اپریل سے وزیر اعلیٰ کے بغیر ہے۔ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے استعفی کے بعد تحریک انصاف کی صوبے میں حکومت ختم ہو چکی ہے۔ جبکہ کئی طرح کے پاپڑ بیلنے کے بعد ن لیگ کے حمزہ شہباز صوبے کے نئے وزیر اعلی منتخب ہو چکے ہیں۔ 
16 اپریل کو پنجاب اسمبلی کے ایک پرتشدد اجلاس میں حمزہ شہباز نئے وزیراعلیٰ تو منتخب ہو گئے البتہ اس کے بعد وہ ایک نئے گرداب میں پھنس گئے جب گورنر پنجاب عمرسرفراز چیمہ نے ان سے حلف لینے سے انکار کر دیا۔
نئے وزیر اعلیٰ کے حلف اٹھاتے ہی صوبے کی انتظامی مشینری کو بھی ایک غیر معمولی صورت حال کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ ایک طرف نو منتخب وزیراعلیٰ کو منصب کے اعتبار سے سکیورٹی اور پروٹوکول مہیا تو کیا گیا لیکن دوسری طرف حلف نہ اٹھا سکنے کے باعث وزیراعلیٰ کے دفتر میں ابھی تک عثمان بزدار ہی براجمان ہیں۔ 
آئینی طور پر نئے وزیر اعلیٰ کے حلف لینے کے بعد ہی سابق وزیراعلیٰ دفتر کا چارج ان کے حوالے کرنے کے پابند ہیں۔ اس غیر یقینی صورت حال میں پیر کے روز اس وقت اضافہ ہو گیا جب گورنر پنجاب عمر چیمہ نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس کو خط لکھ ایک قانونی رائے مانگی ہے کہ عثمان بزدار کا استعفٰی وزیراعظم کے نام تھا گورنر کے نام نہیں اور وہ سابق گورنر نے منظور کر لیا کیا وہ اس غیر قانونی عمل کو واپس کر سکتے ہیں؟ 
اسی طرح انہوں نے یہ بھی پوچھا ہے کہ سیکریٹری اسمبلی کی رپورٹ کے مطابق نئے وزیر اعلیٰ کا چناؤ قانون کے منافی ہوا ہے کیا وہ اسے بھی رد کر سکتے ہیں؟ 
ایڈووکیٹ جنرل نے ابھی تک ان قانونی نکات پر جواب تو نہیں دیا ہے البتہ اس غیر معمولی تاخیر پر مسلم لیگ ن نے ایک دفعہ پھر عدالت جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ 

گورنر پنجاب نے ایڈوکیٹ جنرل سے سابق وزیراعلیٰ کے استعفی کے حوالے سے رائے مانگی ہے (فوٹو: ٹوئٹر)

 مسلم لیگ ن کے رہنما عطا اللہ تارڑ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ہم کوئی نئی درخواست دائر نہیں کر رہے بلکہ پہلے سے موجود کیس میں ایک ضمنی درخواست دائر کر رہے ہیں۔‘
’ہمارا ماننا یہ ہے کہ گورنر اور سپیکر صوبائی اسمبلی کے اقدامات اور حلف نہ لینے کا رویہ غیر آئینی ہے اور ہائی کورٹ کے پہلے سے موجود حکم جس پر یہ انتخاب ہوا ہے کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ یہ اصل میں توہین عدالت کے مرتک ہو رہے ہیں۔ ہم منگل کو عدالت سے رجوع کر رہے ہیں
اس ساری صورت حال میں انتظامی مشینری منقسم ہے اور اب تک واضح نہیں کہ اس وقت صوبہ کون چلا رہا ہے اور اس سوال کا جواب بھی کسی کے پاس نہیں کہ کیا اس وقت پنجاب میں دو وزرائے اعلی کام کر رہے ہیں؟
آئینی اور قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے ایسی صورت حال کا سامنا کبھی نہیں کرنا پڑا تھا۔ اب عدالت ہی اس پر کوئی فیصلہ دے سکتی ہے۔ 
خیال رہے کہ حلف لینے سے انکار پر وفاقی حکومت نے گورنر پنجاب عمر چیمہ کو ہٹانے کے لیے سمری صدر مملکت کو ارسال کر رکھی ہے تاہم انہوں نے ابھی تک اس پر دستخط نہیں کیے ہیں۔ 

شیئر: