Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کراچی حملہ: ’خودکش حملہ آور خاتون سرکاری سکول میں ٹیچر تھی‘

کسی بلوچ خاتون کا خودکش حملے کا یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ  ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
کراچی میں چینی اساتذہ کو نشانہ بنانے والی  خودکش حملہ آور خاتون تھی اور اس حملے کی ذمہ داری کالعدم بلوچ لبریشن آرمی کے مجید بریگیڈ نے قبول کی ہے۔
یہ تنظیم  بلوچستان کے بلوچ علاقوں میں سرگرم ہے اور اس کی زیادہ تر کارروائیاں گوریلا حکمت عملی کے تحت ہوتی ہیں یعنی چھپ چھپ کر اہداف کو نشانہ بنا کر فرار ہوجاتے ہیں۔
تاہم 2018 سے بی ایل اے نے  وہ طریقہ اپنایا جو اس سے پہلے مذہبی شدت پسند تنظیمیں استعمال کرتی تھیں یعنی خودکش حملوں کے ذریعے حملے شروع کردیے۔
2018ء میں بی ایل اے نے پہلی مرتبہ چینی باشندوں کو ایک خودکش حملے کو نشانہ بنایا۔
چاغی کے علاقے دالبندین میں سیندک پراجیکٹ پر کام کرنے والے چینی انجینئرز کی بس پر خودکش کار حملہ اس وقت بی ایل اے کے سربراہ اسلم اچھو کے بیٹے نے کیا۔ اس کے بعد کراچی، گوادر ،نوشکی اورپنجگور  میں تنظیم اس طرز کے 8 حملے کرچکی ہیں۔
تاہم کسی بلوچ خاتون کا خودکش حملے کا یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ  ہے۔
کالعدم بلوچ لبریشن آرمی نے خاتون کی تصویر جاری کی ہے اور اس کی شناخت شاری بلوچ عرف برمش سے ہوئی ہے۔ حملے سے پہلے ایک اور تصویر میں شاری بلوچ اپنے کم عمر بچوں کے ہمراہ بیٹھی ہوئی نظر آرہی ہے۔
ٹویٹر پر شاری بلوچ نے اپنے پروفائل میں اپنی تعلیمی قابلیت ایم فل ان ایجوکیشن  اور زولوجی میں ماسٹرز بتایا ہے۔ شاری بلوچ کے خاندان کو جاننے والے ایک شخص نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ شاری بلوچ کا تعلق بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے کی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور مالی طور پر خوشحال خاندان سے تھا۔

30 سالہ شاری بلوچ  تربت کے ایک سرکاری سکول میں سائنس ٹیچر کے طور پر پڑھاتی بھی رہی ہیںِ۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ان کے خاندان کے کئی افراد اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز ہیں یا رہ چکے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ شاری دو کم عمر بچوں کی ماں تھی جن میں ایک بیٹی اور بیٹا شامل ہے۔ان کے شوہر دانتوں کے ڈاکٹر جبکہ والد سرکاری ادارے میں ڈائریکٹر رہے ہیں۔

ان کے چچا ریٹائرڈ پروفیسر اور بلوچی ادیب ہیں جنہوں نے کئی کتابیں بھی لکھی ہیں۔

30 سالہ شاری بلوچ  تربت کے ایک سرکاری سکول میں سائنس ٹیچر کے طور پر پڑھاتی بھی رہی ہیں وہ کچھ مہینوں پہلے کراچی منتقل ہوئی تھی۔ انہوں نے 2014ء میں بی ایڈ، 2018ء میں ایم ایڈ اور پھر زولوجی میں ماسٹر کیا اور اس کے بعد علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی تربت سے ایم فل کیا۔

انہوں نے بتایا کہ شاری بلوچ  کے خاندان افراد کا کوئی فرد لاپتہ نہیں اور نہ ہی کسی مسلح تنظیم سے وابستہ رہا ہے۔

البتہ وہ اپنے زمانہ طالب علمی میں بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کی رکن رہی ہیں جو علیحدگی پسند سوچ رکھنے والی طلبہ تنظیم ہے اور حکومت پاکستان نے اسے کالعدم قرار دے رکھا ہے۔

بی ایل اے کے موجودہ سربراہ بشیر زیب سمیت بی ایس او آزاد کے کئی ارکان بعد ازاں مسلح تنظیموں کا حصہ بنے۔

شیئر: