Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پی ٹی آئی دور میں سی پیک کے کون سے منصوبے تعطل کا شکار ہوئے؟

احسن اقبال نے کہا کہ منصوبوں پر عملدرآمد کے لیے باقاعدہ اجلاس منعقد کیے جا رہے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان اور چین کےدرمیان اقتصادی راہداری کے اربوں ڈالر کے منصوبے گزشتہ حکومت دور میں ناصرف تعطل کا شکار ہوئے، بلکہ چند منصوبوں پرکام شروع ہی نہ ہو سکا اور صنعتیں لگانے کے لیے مختص ایک بھی خصوصی معاشی زون پر کام مکمل نہیں ہو سکا۔
گزشتہ حکومت میں وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کا دعویٰ تھا کہ سی پیک کی رفتار میں کمی نہیں آنے دی جائے گی، تاہم اردو نیوزکے پاس دستیاب سرکاری دستاویزات کے مطابق سی پیک کے تحت لگائے گئے تکمیل شدہ کئی بجلی گھر بھی گزشتہ دور حکومت میں عدم ادائیگی کی وجہ سے بند ہو گئے۔
اس کے باعث پانچ ہزار میگا واٹ کے بجلی گھروں میں سے تقریبا دوہزار میگا واٹ کے بجلی گھرغیر فعال ہیں۔
گزشتہ سال ستمبر میں اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے سی پیک منصوبوں پر کام کی رفتار سست ہونے کا اعتراف کیا تھا اور کہا تھا کہ کورونا کے باعث سی پیک میں کچھ مسئلے آئے، لیکن اب سی پیک پر تیزی سے کام جاری ہے۔
صنعتیں لگانے کے لیے خصوصی معاشی زونز میں سے ایک بھی مکمل نہ ہوا
دستاویزات کے مطابق سی پیک کے دونوں ممالک کے درمیان صنعتی تعاون کا سب سے اہم منصوبہ  نو خصوصی معاشی زونز تھے جہاں پر چینی کمپنیوں نے صنعتیں لگا کر پاکستان میں ٹیکنالوجی ٹرانسفر اور روزگار فراہم کرنا تھا۔
وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال کے مطابق ان سپیشل اکنامک زونز کو 2020 تک مکمل ہونا تھا تاہم اب تک ایک بھی منصوبے پر کام مکمل نہیں ہو سکا۔
دستاویزات کے مطابق نو میں سے چار اکنامک زونز کو فاسٹ ٹریک پر جلدی مکمل ہونا تھا، مگر ان میں سے ایک بھی مکمل ہونا تو درکنار اس پر 50 فیصد تک کام بھی نہ ہو سکا۔
علامہ اقبال انڈسٹریل سٹی پنجاب پر صرف 35 فیصد کام مکمل ہوا، رشاکائی سپیشل اکنامک زون خیبر پختونخواہ پر 30 فیصد، دھابے جی  سپیشل اکنامک زون ، سندھ پر صرف پانچ فیصد اور بوستان سپیشل اکنامک زون ، بلوچستان پر صرف بیس فیصد کام مکمل ہوا۔
ان منصوبوں پر تاخیر کے حوالے سے اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر سابق حکومت کے ساتھ کام کرنے والے سی پیک اتھارٹی کے اہم عہدیدار کا کہنا تھا کہ خصوصی معاشی زون کا تصور اس لیے پیش کیا گیا تھا کہ ترقی کرتے ہوئے چین کو سستی لیبر کے ساتھ اپنی صنعت کہیں نا کہیں منتقل کرنا تھی تو پاکستان اس موقع سے فائدہ اٹھائے۔
تاہم اس مقصد کے لیے چینی سرمایہ کاروں کو کاروبار کی مکمل سہولیات ملنا لازمی ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ جس زون میں وہ سرمایہ کاری کریں وہاں ان کو بجلی، گیس، زمین اور دیگر سہولیات ون ونڈو کے تحت دستیاب ہوں، لیکن پاکستان میں ابھی تک ایسا نہیں ہو سکا جس کی وجہ سے سرمایہ کاروں کی دلچسپی کم ہوئی۔

دستاویزات کے مطابق سی پیک کے تحت چین کے تعاون سے لگنے والے تقریبا 38 فیصد بجلی گھر بند پڑے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

تاہم ان کا کہنا تھا کہ ایسا بھی نہیں کہ معاشی زون پر کوئی کام نہیں ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ کچھ تاخیر تکنیکی وجوہات جیسا کہ زمین، بجلی، گیس وغیرہ کی سہولیات کی دستیابی، معاہدوں کو حتمی شکل دینے میں تاخیر کی وجہ سے بھی ہوئی۔
انہوں نے بتایا کہ ابتدائی طور پر خیبر پختونخواہ نے رشکئی اکنامک زون کی نشاندہی کی، سندھ نے چائنا اکنامک زون دھابیجی کی، بلوچستان سے بوستان اکنامک زون کا نام سامنے آیا، اور پنجاب کی طرف سے چائنہ اکنامک زون شیخوپورہ، مقپون داس گلگت بلتستان، بھمبر اکنامک زون کشمیر جبکہ اسلام آباد نے انڈسٹریل زون اور انڈسٹریل زون میں جزوی طور پر صنعتی زون کی نشاندہی کی۔
 ’فاٹا میں مومند انڈسٹریل زون زیر غور تھا، تاہم ابتدائی چار کو 2023 تک مکمل ہونے والے منصوبوں کے ایک حصے کے طور پر حتمی شکل دی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ بورڈ آف انویسٹمنٹ نے کچھ سہولیات دینا تھیں ان میں بھی کچھ تاخیر ہوئی ہے، تاہم ون ونڈو آپریشن پر کام کیا جا رہا ہے تاکہ فوری طور پر ایک صنعت کار انڈسٹری لگا سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ فیصل آباد کے انڈسٹریل زون میں کچھ چینی سرمایہ کاروں نے جگہ وغیرہ لے کرسہولیات پر کام بھی شروع کر دیا ہے۔
بجلی گھر کیوں بند ہوئے؟
دستاویزات کے مطابق سی پیک کے تحت چین کے تعاون سے لگنے والے تقریبا 38 فیصد بجلی گھر بند پڑے ہیں جس کے باعث دو ہزار میگا واٹ بجلی پیدا نہیں ہو رہی اور ملک میں لوڈ شیڈنگ میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔
اس حوالے سے اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر سی پیک اتھارٹی کے اہلکار کا کہنا تھا کہ ’گزشتہ حکومت کے دور میں 300 ارب روپے کی عدم ادائیگی کے باعث کئی بجلی گھر بند ہو گئے۔‘
انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ سی پیک کے علاوہ بجلی گھروں کا بھی ہے اور بند ہونے والے کچھ بجلی گھر کوئلے پر چلتے ہیں۔ عالمی مارکیٹ میں کوئلے کی قیمت میں اضافے اور دیگر وجوہات کی بنا پر ادائیگیاں نہیں ہو پائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ امید ہے یہ مسئلہ حل کر لیا جائے گا۔

موجودہ ایف بی آر کے ذریعے ٹیکس چھوٹ واپس بحال کرنے پر غور کر رہی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

سیل ٹیکس کی چھوٹ واپس لینے کی شکایت
گزشتہ حکومت نے ضمنی بجٹ کے ذریعے سی پیک کے تحت بجلی بنانے والے کارخانوں پر بھی سترہ فیصد درآمدی ٹیکس کی چھوٹ ختم کر دی تھی جس کے باعث بجلی گھر مشکلات کا شکار ہو گئے۔
اس طرح سات زیر تعمیر بجلی گھر متاثر ہوئے۔ اردو نیوز کو معلوم ہوا ہے کہ موجودہ ایف بی آر کے ذریعے ٹیکس چھوٹ واپس بحال کرنے پر غور کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ سی پیک بجلی گھروں کے لیے ریوالونگ اکاؤنٹ، جو 2014  سے زیر التوا ہے، کھولنے پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔
چینی شہریوں کے ویزا کے مسائل
اردو نیوز کو معلوم ہوا ہے کہ سی پیک کے لیے پاکستان میں موجود کئی چینی شہریوں کو ویزا کے مسائل کا بھی سامنا ہے اور ان کے بزنس ویزوں کو وزارت داخلہ کی جانب سے توسیع نہیں مل سکی۔
اس حوالے سے سابقہ حکومت کے ساتھ سی پیک اتھارٹی میں کام کرنے والے عہدیدار کا کہنا تھا کہ یہ مسئلہ تکنیکی نوعیت کا ہے، کیونکہ سی پیک کے لیے آنے والے کئی چینی شہریوں نے بزنس ویزا حاصل کیا تھا چونکہ وہ آسانی سے مل جاتا ہے۔
 تاہم اس ویزے پر رہنے والے افراد کو پاکستانی قوانین کے مطابق ملک کے اندر رہتے ہوئے ویزا کی مدت میں توسیع نہیں مل سکتی اور توسیع صرف ورک ویزا پر آنے والوں کو دی جاتی ہے۔
اس مسئلے کے حل کےلیے اتھارٹی نے وزرات داخلہ سے ایسے افراد کو ایک دفعہ رعایت دینے کی درخواست کی ہے تاکہ کورونا کے باعث واپس نہ جا سکنے والے ایسےشہریوں کے بزنس ویزوں کو ورک ویزوں میں بدل دیا جائے۔
نئی حکومت کی چینی سفیر کو سی پیک پر کام تیز کرنےکی یقین دہانی
منگل کو وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے اس حوالے سے چین کی قائم مقام سفیر پینگ چونزوئی سے ملاقات کر کے بتایا کہ نئی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے پاک چین اقتصادی راہداری سی پیک کے تحت شروع ہونے والے منصوبوں میں تیز ہوئی ہے۔

احسن اقبال نے کہا کہ ’حکومت کی اوّلین  ترجیح سی پیک منصوبوں میں تیزی لانا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

ان کا کہنا تھا کہ منصوبوں پر عملدرآمد کے لیے باقاعدہ اجلاس منعقد کیے جا رہے ہیں اور جے سی سی مینٹگ کا اجلاس عید کے فوراً بعد طلب کیا گیا ہے۔
احسن اقبال نے کہا کہ ’حکومت کی اوّلین  ترجیح چینیوں کا اعتماد بحال کرنے کے لیے سی پیک منصوبوں میں تیزی لانا ہے جو بدقسمتی سے پچھلے دور میں عدم توجہ کا شکار رہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’بدقسمتی سے پچھلے چار سالوں کے دوران سی پیک کے منصوبوں پر خاص طور پر صنعتی اقتصادی زونز IEZs پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی جس سے چینی سرمایہ کاروں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی، تاہم انہوں نے یقین دلایا کہ سی پیک پر باقاعدگی سے ہونے والے اجلاسوں کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔‘
وفاقی وزیر نے پاکستان اور چین کو خلائی ٹیکنالوجی پر کام شروع کرنے کی تجویز بھی دی اور کہا کہ پاکستانی خلابازوں کو چائنیز کے ساتھ خلا میں جانے کا موقع دیا جانا چاہیے۔
وفاقی وزیر نے ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں پانی کے مسئلے کی بھی نشاندہی کی اور چینی قائم مقام سفیر سے پینے کے صاف پانی کے بحران پر قابو پانے کے لیے شہر میں ڈی سیلینیشن قائم کرنے کی درخواست بھی کی۔

شیئر: