Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی الیکٹرانک یونیورسٹی پہلی بار ٹائمز ہائر ایجوکیشن امپیکٹ رینکنگ میں شامل

سعودی الیکٹرانک یونیورسٹی پہلی بار ٹائمز ہائر ایجوکیشن امپیکٹ رینکنگ میں عالمی یونیورسٹیوں کی فہرست میں شامل ہو گئی ہے۔
عرب نیوز کے مطابق ٹائمز کی فہرست جس نے سعودی الیکٹرانک یونیورسٹی کو 600 عالمی سطح پر تسلیم شدہ اداروں میں سے 401 نمبر پر رکھا، یونیورسٹی کی کارکردگی کو اقوام متحدہ کے 17 پائیدار ترقی کے اہداف کے مطابق جانچا جس میں ’جامع اور مساوی معیار کی تعلیم کو یقینی بنانا اور سب کے لیے زندگی بھر کے مواقع کو فروغ دینا شامل ہے۔‘
سعودی الیکٹرانک یونیورسٹی کو دنیا کی 300 اعلیٰ یونیورسٹیوں میں پائیدار ترقی کے اہداف میں 17 ویں نمبر پر شامل کیا گیا جو پائیدار ترقی کے لیے عالمی شراکت داری کو مضبوط اور بحال کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
سعودی الیکٹرانک یونیورسٹی کو ’معیاری تعلیم‘ کے چوتھے ہدف میں 200 میں سے101 نمبر پررکھا گیا، ’عدم مساوات کو کم کرنے‘ کے 10 ویں ہدف میں 300 میں سے 201 نمبر پراور پائیدار ترقی کے اہداف میں تیسرے جب کہ ’اچھی صحت اور بہبود‘ کو 400 میں سے301 نمبر پر رکھا گیا۔
سعودی الیکٹرانک یونیورسٹی کو صنفی مساوات اور خواتین کو بااختیار بنانے پر توجہ دینے والے پانچویں پائیدار ترقی کے اہداف میں 400 میں سے 301 نمبر پر رکھا گیا ہے۔
سعودی وزیر تعلیم حماد الشیخ نے جولائی 2020 میں لیلک الصفادی کو سعودی الیکٹرانک یونیورسٹی کا صدر مقرر کیا۔ اس تقرری نے الصفادی کو سعودی کوڈ یونیورسٹی کی پہلی خاتون صدر بنا دیا۔
لیلک الصفادی نے کہا کہ یونیورسٹی نے اپنی حکمت عملی کے منصوبے کے حصے کے طور پر کئی اہم مقاصد حاصل کیے ہیں جن میں ’ای لرننگ میں ایک اہم علاقائی کردار کی تعمیر‘ اور ’عالمی یونیورسٹی کی درجہ بندی کے اشارے میں یونیورسٹی کی شمولیت‘ شامل ہیں۔
جدہ کی یونیورسٹی آف بزنس اینڈ ٹیکنالوجی نے بھی دنیا بھر کی ٹاپ 400 یونیورسٹیوں کی فہرست میں درجہ بندی کرکے ایک نئی بین الاقوامی کامیابی حاصل کی ہے۔
یہ کامیابی عدم مساوات کو کم کرنے اوراقتصادی ترقی کے حصول کے اقوام متحدہ کے اہداف میں یونیورسٹی کے تعاون کی وجہ سے تھی۔
یونیورسٹی کی پالیسیوں کے نتیجے میں دونوں جنسوں کو بااختیار بنایا گیا ہے خاص طور پر خواتین جو یونیورسٹی کے سینئیر لیڈروں کا 40 فیصد اور یونیورسٹی کی لیبر کمیٹی کے 54 فیصد ہیں (13 میں سے 7 اراکین خواتین ہیں)۔ یہ کمیٹی مملکت میں کسی نجی یونیورسٹی میں قائم ہونے والی پہلی کمیٹی تھی۔
 

 

 

 

شیئر: