Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں فوری انتخابات: اتحادی جماعتیں کیا فیصلہ کریں گی؟

پاکستان پیپلز پارٹی فوری الیکشن سے قبل کچھ اقدامات اٹھانے کی تجویز پر قائم ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں فوری انتخابات یا اسمبلی کی مدت مکمل کرنے کے حوالے سے حکمراں جماعتوں کی قیادت آج (منگل) کو سر جوڑ کر بیٹھے گی۔
جہاں ایک طرف سٹاک مارکیٹ اور پاکستانی کرنسی مشکلات کا سامنا کر رہی ہیں وہیں پاکستان میں حکومتی جماعتیں اپنے مستقبل کے حوالے سے گومگو کی کیفیت کا شکار ہیں۔ ابھی تک فوری الیکشن کرنے یا پیٹرول کی قیمت بڑھانے سمیت سخت معاشی فیصلے کرنے کے حوالے سے ابھی تک اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔
منگل کو وفاقی کابینہ کا اہم اجلاس بھی ہو رہا ہے جس میں وزیراعظم  شہباز شریف وزرا کو مستقبل کے حوالے سے اعتماد میں لیں گے۔
وزیراعظم سمیت حکومت کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ نواز کے رہنماؤں نے لندن میں پارٹی کے قائد نواز شریف سے ملاقات میں مستقبل کے لائحہ عمل کے حوالے سے طویل مشاورت کی ہے اور اب وزیراعظم اتحادی جماعتوں کو اعتماد میں لے رہے ہیں۔
تاہم ابھی تک کسی حکومتی رہنما نے واضح طور پر نہیں بتایا کہ آیا لندن میں فوری انتخاب کا فیصلہ ہوا ہے یا موجودہ حکومت اپنی بقیہ ایک برس سے زائد مدت پوری کرے گی۔
پیر کو اس حوالے سے حکومتی اتحادیوں کے بھی متضاد بیانات سامنے آئے جن سے بھی واضح ہو رہا ہے کہ ابھی تک اس معاملے پر کوئی حتمی فیصلہ سامنے نہیں آ سکا ہے۔

ایم کیو ایم جلد انتخابات کی حامی

کراچی سے حکمراں اتحاد میں شامل اہم جماعت ایم کیو ایم نے جلد انتخابات پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ اسلام آباد میں صحافیوں کے ایک گروپ سے غیر رسمی گفتگو میں ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ عام انتخابات کے ذریعے نیا مینڈیٹ لیا جائے تو مسائل حل ہو سکتے ہیں۔
خالد مقبول صدیقی نے اس سے قبل پیر ہی کو وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کی تھی۔ ایم کیو رہنما کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنی تجاویز سے وزیراعظم کو آگاہ کر دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم پاکستان پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی مخالف ہے ۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں سے متعلق حکومت امیر اور غریب میں فرق رکھے۔ ’موٹرسائیکل والوں کے لیے قیمت الگ اور جو گاڑیوں کی ٹینکی بھرواتے ہیں ان میں فرق کیا جائے۔‘
انہوں نے کہا کہ فریش مینڈیٹ لیا جائے، دیر کی گئی تو بدنصیبی ہوگی۔ تاہم انہوں نے انتخابی اصلاحات کے حوالے سے سوال پر کہا کہ ایک ہفتے میں بھی اصلاحات ہوسکتی ہیں۔
خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ مشکل حالات ہیں ہمیں ریاست کو دیکھنا ہے۔ سیاست کو نہیں۔ ریاست کو بچانے کی خاطر مشکل فیصلے لینے چاہئیں،  سیاست کی قربانی دینا ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم عمران خان کی حکومت میں اپوزیشن میں بیٹھنے کے لیے تیار ہوگئی تھی اور اتحادیوں میں سب سے آخر میں حکومت سے علیحدگی کا فیصلہ ایم کیو ایم  نے کیا۔
 انہوں نے کہا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت اور توسیع سے متعلق قانون سازی کر لینی چاہے تاکہ بحث ہی نہ ہو۔
ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم کے ساتھ معاہدوں پر عمل درآمد نہ ہوا تو اپوزیشن میں بیٹھنے کا آپشن کھلا ہے۔
خالد مقبول صدیقی نے بتایا کہ وزیراعظم نے منگل کو تمام اتحادیوں رہنماوں کا مشاورتی اجلاس بلا لیا ہے۔

جمعیت علماء اسلام اصلاحات کے بعد فوری انتخابات پر راضی

حکومتی اتحادی جماعت جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی) نے بھی فوری انتخابات کی تجویز پر رضامندی کا عندیہ دیا ہے۔

جمعیت علماء اسلام فوری انتخابات کرانے کے حق میں ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے جے یو آئی کے ترجمان اسلم غوری کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت وہی فیصلہ کرے گی جس پر اتحادی رضامند ہوں گے، تاہم ان کی رائے ہے کہ انتخابی اصلاحات کے بغیر الیکشن کی وہی حثییت ہو گی جو 2018 کے انتخابات کی تھی۔
’ہم تو پہلے دن سے کہتے تھے کہ الیکشن کراؤ کیونکہ پہلے سے علم ہے کہ معاشی حالات بہت خراب ہیں کیونکہ سابق حکومت ملک کا بیڑا غرق کر کے گئی ہے۔‘  
ان کا کہنا تھا کہ انتخابی اصلاحات 15 دن کا کام ہے۔ اگر حکومت چاہے تو جلدی الیکشن کروا سکتی ہے تاہم ان کی جماعت اتحادیوں کے مشترکہ فیصلے کا احترام کرے گی۔

پاکستان پیپلز پارٹی فوری انتخابات سے گریز کی قائل

حکومت کی دوسری بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے واضح طور پر موقف اختیار کر رکھا ہے کہ مکمل انتخابی اور معاشی اصلاحات کرکے ہی الیکشن کی طرف جانا چاہیے۔
اس حوالے سے پارٹی کے چئیرمین اور سابق صدر آصف زرداری گزشتہ ہفتے اپنی ایک ہنگامی پریس کانفرنس میں کہہ چکے ہیں کہ جلد انتخابات کے حوالے سے فیصلہ پارلیمنٹ نے کرنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے ان کی نواز شریف سے بات ہو چکی ہے۔

پیپلز پارٹی نے واضح طور پر موقف اختیار کر رکھا ہے کہ مکمل انتخابی اور معاشی اصلاحات کرکے ہی الیکشن کی طرف جانا چاہیے(فائل فوٹو: اے ایف پی)

انتخابی اصلاحات ہوں۔ بیرون ملک پاکستانیوں کے ووٹ کے حق کے حوالے سے قوانین میں تبدیلیاں ہوں اور پھر معاشی حالت ایسی ہو تو پھر اگر پارلیمنٹ سمجھتی ہے تو ہمیں انتخابات پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔

مسلم لیگ ن میں متضاد آرا

سب سے بڑی اتحادی جماعت مسلم لیگ ن میں فوری انتخابات یا اسمبلی کی مدت پوری کرنے کے حوالے سے بظاہر متضاد آرا سامنے آ رہی ہیں۔
مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے اتوار کو پریس کانفرنس میں پیٹرول کی قیمت نہ بڑھانے کا اعلان کرکے عندیہ دیا کہ شاید حکومت جلد انتخابات کی طرف ہی جانا چاہتی ہے کیونکہ پیٹرول کی سبسڈی ختم کیے بغیر آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ بحال نہیں ہو گا اور حکومت کی معاشی مشکلات برقرار رہیں گی۔
ماہرین کے مطابق اگر حکومت مدت مکمل کرنا چاہتی ہے تو اسے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے یقینا آئی ایم ایف کی شرائط مان کر پیٹرول کی قیمت بڑھانا ہو گی۔
وزیراعظم شہباز شریف نے ابھی تک فوری انتخابات یا مدت پوری کرنے کے حوالے سے کھل کر اپنی پوزیشن واضح نہیں کی۔ انہوں نے اس حوالے سے منگل کو تمام اتحادی جماعتوں کا اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا ہے جس میں حتمی فیصلہ سامنے آنے کی توقع ہے۔
 تاہم سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز چند دن قبل کہہ چکی ہیں کہ موجود حکومت پی ٹی آئی کا گند نہیں سنبھالنا چاہتی۔ گویا ان کا اشارہ فوری انتخابات کی طرف جانے کا تھا۔

مریم نواز شریف نے گجرات میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اب انتخابات تب ہوں گے جب لندن سے نواز شریف فیصلہ کریں گے(فائل فوٹو: اے ایف پی)

اتوار کو بھی مریم نواز شریف نے گجرات میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اب انتخابات تب ہوں گے جب لندن سے نواز شریف فیصلہ کریں گے۔
دوسری طرف پارٹی کے رہنما اور وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال کا کہنا ہے کہ یہ اتحادی حکومت ہے اور تمام فیصلے اتفاق رائے سے کیے جائیں گے۔
مقامی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے فوری انتخابات کے فیصلے کی حمایت سے گریز کرتے ہوئے مشاورت کی بات کی۔
پارٹی کے  رہنما شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ اسمبلیوں کی مدت کے حوالے سے فیصلہ اتحادیوں کے ساتھ مل کر ہو گا۔
’جو فیصلے ہوں گے ان کی بڑی سیاسی قیمت ادا کرنی ہو گی۔‘

شیئر: