Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سپریم کورٹ نے ہائی پروفائل مقدمات میں تقرریاں اور تبادلے روک دیے

چیف جسٹس نے کہا ’’یہ کارروائی کسی کو ملزم ٹھہرانے یا کسی کو شرمندہ کرنے کے لیے نہیں ہے۔‘ (فائل فوٹو: سپریم کورٹ)
پاکستان کی سپریم کورٹ نے فوجداری مقدمات پر اثرانداز ہونے کی مبینہ کوشش پر ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران حکم دیا ہے کہ ہائی پروفائل مقدمات میں پراسیکوشن تحقیقات برانچ میں تاحکم ثانی تبادلے اور تقرریاں نہیں کی جائے گی۔
جمعرات کو چیف جسٹس جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجز بنچ نے نوٹس کی سماعت کی اور نیب اور ایف آئی اے کو تاحکم ثانی کوئی بھی مقدمہ واپس لینے سے روک دیا۔
سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ ’کیا آپ نے سو موٹو کیس کی پیپر بک پڑھی ہے؟‘
اٹارنی جنرل کی جانب سے نفی میں جواب پر انہیں سو موٹو نوٹس کیس کی پیپر بک پڑھنے کے لیے دی گئی اور چیف جسٹس نے انہیں دوسرا اور تیسرا پیراگراف پڑھنے کو کہا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ’ایف آئی اے کے لاہور کی عدالت میں پراسیکیوٹر کو تبدیل کردیا گیا۔ ڈی جی ایف آئی اے اور ڈائریکٹر رضوان کو بھی تبدیل کر دیا گیا۔ ڈی جی ایف آئی اے نے ایک تفتیشی کو پیش ہونے سے منع کیا۔‘
’پراسیکیوشن برانچ اور پراسیکیوشن کے عمل میں مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔‘

’ای سی ایل رُولز میں تبدیلی تین ہزار افراد کو فائدہ ہوا‘

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’ڈی جی ایف آئی اے سندھ سے ہیں اور اچھی شہرت کے حامل افسر ہیں۔ وہ اچھا کام کر رہے تھے۔ کے پی کے میں ان کی کارکردگی اچھی تھی۔‘
’ڈاکٹر رضوان کو بھی تبدیل کر دیا گیا۔ ڈاکٹر رضوان کو بعد میں ہارٹ اٹیک ہوا۔ ان معاملات پر تشویش ہے۔‘
عدالت نے ای سی ایل سے مختلف افراد کے نام نکالنے جانے پر کہا کہ ’اخبار کے تراشوں کے مطابق ای سی ایل سے نام نکلنے پر ہزاروں افراد کا فائدہ ہوا۔ان معاملات کو جاننا چاہتے ہیں۔‘
’اخبار کی خبر کے مطابق ای سی ایل رولز میں تبدیلی تین ہزار افراد کو فائدہ ہوا۔ ہم ایسی خبریں ایک ماہ سے دیکھ اور پڑھ رہے ہیں۔ اس سے قانون کی حکمرانی پر اثر پڑ رہا ہے۔‘
جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ ’ای سی ایل سے نام نکالنے کیلئے درخواست دینا پڑتی ہے۔ سینکڑوں لوگوں کی درخواستیں پینڈگ پڑی رہتی ہیں۔ ای سی ایل سے نام نکالنے کے لیے کیا طریقہ کار اختیار کیا گیا؟‘

’وضاحت کریں مقدمات میں مداخلت کیوں ہورہی ہے؟‘

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ’امن اور اعتماد کو معاشرے میں برقرار رکھنا آئین کے تحت ہماری ذمہ داری ہے۔ قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنا ہے۔‘
’یہ کارروائی کسی کو ملزم ٹھہرانے یا کسی کو شرمندہ کرنے کے لیے نہیں ہے۔ یہ کارروائی فوجداری نظام اور قانون کی حکمرانی کو بچانے کے لیے ہے۔‘
عدالت نے کہا کہ ’چاہتے ہیں آرٹیکل 10/A 4 اور 25 پر عمل کیا جائے۔ ہم متعلقہ فریقوں کو نوٹس جاری کر رہے ہیں۔‘
بعدازاں سپریم کورٹ نے چیئرمین نیب، ڈی جی ایف آئی اے، اور سیکریٹری داخلہ کو نوٹس جاری کر دیے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’وضاحت کریں مقدمات میں مداخلت کیوں ہورہی ہے؟‘
’امید کرتا ہوں کہ وفاقی حکومت ان اقدامات کی وضاحت کرنے میں تعاون کرے گی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اپریل اور مئی میں کئی خبروں کو پیپر بک میں شامل کیا گیا ہے۔ خبروں کے مطابق نیب کا فوجداری ریکارڈ غائب ہونا شروع ہو گیا۔ نیب کے چار مقدمات میں ریکارڈ گم ہونے کی خبر بھی ہے۔اٹارنی جنرل ان معاملات میں ہماری مدد کریں۔‘

جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ ’ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ انہیں پیش نہ ہونے کا کہا گیا ہے۔‘ (فائل فوٹو: اے پی پی)

عدالت نے صوبائی پراسیکوٹر جنرلز، سربراہ پراسیکیویشن ایف آئی اے اور لیگل ڈائریکٹر ایف آئی اے کو بھی نوٹس جاری کر دیے۔
جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ ’ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے عدالت میں تحریری درخواست دی۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ انہیں پیش نہ ہونے کا کہا گیا ہے۔‘
’پراسیکیوٹر کو کہا گیا جو بندہ وزیر اعلیٰ/وزیراعظم بننے والا ہے اس کے مقدمے میں پیش نہ ہوں۔‘
بینچ میں شامل جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ’بظاہر یہ ٹارگٹڈ ٹرانسفر پوسٹنگ کیے گئے۔‘ اس پر اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے کہا کہ ’ایف آئی اے کے پاس ان تبدیلیوں کی کوئی معقول وجہ ہوگی۔‘
جسٹس منیب اختر نے کہا ’اس پر تشویش ہے۔ اس لیے چیف جسٹس نے سوموٹو نوٹس لیا، آپ تعاون کریں۔‘

ہمیں تنقید کا بھی کوئی خوف نہیں

دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ ’ہماری تشویش صرف انصاف فراہمی کے لیے ہے۔ ہم تحقیقاتی عمل کا وقار، عزت اور تکریم برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔‘
’ہم یہ پوائنٹ سکورنگ کے لیے نہیں کر رہے۔ ہم کسی قسم کی تنقید سے متاثر نہیں ہوں گے۔ ہم آئین اور اللہ کو جوابدہ ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہمیں تعریف کی ضرورت نہیں۔ ہمیں تنقید کا بھی کوئی خوف نہیں۔ صرف انصاف کی فراہمی چاہتے ہیں جو اندراج مقدمہ سے فیصلے پر ختم ہوتی ہے۔‘

چیف جسٹس نے کہا کہ ’سیاسی جماعتوں کے سوشل میڈیا سیل بہت مضبوط ہیں۔ ہم خاموش تماشائی بن کر یہ چیزیں نوٹ کرتے رہے۔‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

چیف جسٹس نے کہا کہ ’سیاسی جماعتوں کے سوشل میڈیا سیل بہت مضبوط ہیں۔ ہم خاموش تماشائی بن کر یہ چیزیں نوٹ کرتے رہے۔ مئی سے یہ اقدامات ہونا شروع ہوئے ہم ان اقدامات کو دیکھتے رہے۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’لاہور اور کراچی کی خصوصی عدالتیں ججز سے خالی پڑی ہیں۔ اسلام آباد کی تین احتساب عدالتیں خالی ہیں۔‘

مختصر حکم نامے میں کیا کہا گیا ہے؟

سپریم کورٹ نے سماعت کے آغاز پر اپنے مختصر حکم نامے میں وفاقی سیکریٹری داخلہ، ڈی جی ایف آئی اے، چیئرمین نیب، ریجنل ڈائریکٹرز نیب، صوبائی ایڈووکیٹ جنرل، صوبائی پروسیکیوٹرز جنرل، نیب اور ایف آئی اے کے ہیڈ آف انویسٹی گیشن اور پروسیکیوشن کو نوٹس جاری کیے۔
عدالت نے تمام افسران کو حکم دیا کہ وہ اپنے جوابات تحریری طور پر عدالت میں جمع کرائیں جن میں چھ ہفتوں میں ہائی پروفائل مقدمات کی پروسیکیوشن اور انویسٹی گیشن پر مامور تقرریوں، تبادلوں اور افسران کو عہدوں سے ہٹائے جانے اور مقدمات کی واپسی سے متعلق تمام حقائق اور اس سے متعلق مواد اور وضاحت شامل ہو۔
عدالت نے کہا کہ ہٹائے گئے افسران اور ان کی جگہ پر تعینات ہونے والے افسران کے نام بھی عدالت میں پیش کیے جائیں۔
اسی طرح ای سی ایل سے نکالے گئے افراد کے نام اور مقدمات کی تفصیل سے بھی آگاہ کیا جائے جبکہ ای سی ایل سے نام نکالے جانے کے موجودہ اور ماضی کے طریقہ کار سے بھی آگاہ کیا جائے۔
عدالت نے نیب اور ایف آئی کو حکم دیا کہ ہائی پروفائل مقدمات کی کیس فائلوں اور ریکارڈ کو محفوظ بنانے کے اقدامات سے آگاہ کریں اور ریکارڈ چیک کرکے اس کی تصدیق کرتے ہوئے سیل کریں اور اس کی رپورٹ عدالت میں جمع کروائی جائے۔
عدالت نے نیب اور ایف آئے کے ہائی پروفائل کیسز پر مامور تفتیشی اور پروسیکیوشن افسران کی تقرریوں اور تبادلوں پر پابندی کا حکم دیتے ہوئے تاحکم ثانی مقدمات کی واپسی پر پابندی عائد کر دی۔
عدالت نے سماعت اگلے جمعہ تک ملتوی کر دی۔

سوموٹو نوٹس کس معاملے میں لیا گیا؟

یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے بدھ کو پراسیکیوشن افسروں کے حالیہ تبادلوں اور فوجداری مقدمات پر اثرانداز ہونے کی مبینہ کوششوں کی میڈیا رپورٹس پر ازخود نوٹس لے لیا تھا۔
بدھ کے روز سپریم کورٹ آف پاکستان کے ترجمان کی جانب سے جاری ایک بیان کہا گیا تھا کہ چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ ازخود نوٹس کی سماعت جمعرات کو دن ایک بجے کرے گا۔ 
سپریم کورٹ کے جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس محمد علی مظہر بینچ کا حصہ ہیں۔
بیان کے مطابق خدشہ ہے کہ مبینہ مداخلت مقدمات میں پراسیکیوشن پر اثرانداز ہونے اور پراسیکیوشن کے پاس موجود شواہد اور ثبوتوں کو مٹانے اور اہم عہدوں پر موجود افراد کے تقرر اور تبادلے کا سبب بن سکتا ہے۔
’ایسے اقدامات اور میڈیا میں نیب قوانین میں مجوزہ ترامیم کے حوالے سے آنے والی خبریں ملک کے کریمینل جسٹس سسٹم پر اثرانداز ہونے اور بحیثیت مجموعی معاشرے کے بنیادی حقوق کو متاثر کرنے اور عوام کے ملک میں قانون اور آئین کی حکمرانی پر اعتماد کو ختم کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔‘

شیئر: