Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’بھائیوں کو جلا ڈالا، بے رحم آگ نے سب کچھ چھین لیا‘

پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع شیرانی میں چلغوزے کے جنگل میں لگنے والی آگ پر بڑی حد تک قابو پالیا گیا ہے لیکن بجھنے سے پہلے اس آگ نے تین گھرانوں کے چشم و چراغ اور سینکڑوں خاندانوں کے چولہے بھی بجھا دیے ہیں۔
شیرانی میں آتشزدگی کے واقعے سے متعلق وزیراعظم کے فوکل پرسن وفاقی وزیر مولانا عبدالواسع نے منگل کو کوئٹہ میں میڈیا کو بتایا کہ آگ پر 95 سے 98 فیصد قابو پالیا گیا ہے۔
’اب تک جلتے ہوئے انگارے موجود ہیں۔ اگر ہوا چلی تو ان سے آگ دوبارہ پھیلنے کا خطرہ موجود ہے۔ اس لیے علاقے میں اب تک امدادی ٹیمیں اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘
محکمہ جنگلات نے جنگل کی اس آگ کو بلوچستان اور پاکستان کی تاریخ کی بدترین آتشزدگی کے واقعات میں سے ایک قرار دیا ہے اور بتایا ہے کہ ایک ہفتے تک جاری رہنے والی آگ نے تقریباً 64 ہزار ایکڑ رقبے پر پھیلے جنگل کا 10 ہزار ایکڑ سے زائد حصہ متاثر کیا ہے۔
18مئی کو لگنے والی اس آگ کو بجھانے کی کوششوں میں تین افراد بھی جھلس کر ہلاک ہوگئے تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں شیرانی کے علاقے شرغلی کے رہائشی نور تاج کے دو بھائی شامل تھے۔ان کا خاندان کوہ سلیمان کے بلند و بالا پہاڑی پر چلغوزوں کے جنگل کے درمیان جھاڑیوں، مٹی اور پتھر سے بننے والے ایک چھوٹے سے گھر میں رہتا ہے۔
نور تاج نے بتایا کہ 19 مئی کو آگ انتہائی تیزی سے ہمارے گھر کی طرف آنے لگی تو بھائی سپین خان اور کلا خان اسے بجھانے کے لیے نکلے۔ وہ خالی ہاتھ نکلے تھے، پتھر اور مٹی پھینک کر اور درخت کی شاخیں توڑ کر ان کی مدد سے آگ بجھانے کی کوششیں کیں لیکن انہیں کامیابی نہیں ملی۔
اس دوران ہوا تیز ہوئی تو آگ کی شدت میں بھی اضافہ ہوا اور جنگل کے گھنے حصے میں دونوں بھائی آگ کی لپیٹ میں آگئے، دونوں جنگل اور اپنے خاندان کو بچاتے بچاتے زندہ جل گئے۔
انہوں نے بتایا کہ سپین خان کا تقریباً ایک ماہ پہلے بیٹا پیدا ہوا تھا، اس نے پہلی بیوی کے مرنے کے بعد دوسری شادی کی تھی، پہلی بیوی سے بھی تین بیٹیاں یتیم رہ گئی تھیں۔ اب ان کا باپ بھی نہیں رہا۔ کلا خان کی بھی چھوٹی بیٹیاں یتیم ہوگئی ہیں۔
نور تاج کا کہنا تھا کہ وہ سال بھر چلغوزوں کی پیداوار سے حاصل ہونے والی آمدن کے انتظار میں رہتے تھے، پورا سال آٹا، گھی اور اشیاء ضروریہ ایک دکاندار سے قرض پر لیتے تھے پھر جب اگست یا ستمبر میں چلغوزے کی فصل تیار ہوجاتی تو انہیں فروخت کرکے ہم اپنا قرض اتار لیتے تھے۔
جب بارشیں اچھی ہوجاتیں تو قرض اتارنے کے بعد کچھ آمدن بھی بچ جاتی تھی۔ اس سال تو بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے ویسے ہی قرض اتارنا مشکل لگ رہا تھا، ہم بمشکل دو وقت کی روٹی پوری کررہے تھے۔آگ نے نہ صرف بھائیوں بلکہ روزگار اور مستقبل کی امیدوں کو بھی ہم سے چھین لیا۔

پاکستان کی فوج کا ہیلی کاپٹر بھی چلغوزے کے جنگل میں آگ بجھانے میں مصروف رہا (فوٹو: آئی ایس پی آر)

شرغلی کے ایک اوررہائشی علاؤ الدین کو یہ تو معلوم نہیں کہ جنگل میں چلغوزوں کے کل کتنے درخت ان کی ملکیت تھے لیکن گزشتہ برس انہوں نے 11 لاکھ 20 ہزار روپے کی آمدن حاصل کی تھی۔
 علاؤ الدین نے بتایا کہ آگ نے ان کے حصے میں آنے والے تمام درخت جلا کر تباہ کردیے ہیں۔
نور تاج اور علاؤ الدین جیسے سینکڑوں خاندان شیرانی میں کوہ سلیمان کے پہاڑی سلسلے میں ہزاروں ایکڑ پر پھیلے چلغوزوں اور زیتون کے جنگلات میں آباؤ اجداد کے دور سے رہتے آرہے ہیں اور ان میں سے بیشتر کا انحصار ان جنگلی چلغوزوں سے ہونے والی آمدن پر ہے۔
تاہم گزشتہ دو ہفتوں سے ضلع شیرانی میں مختلف مقامات پر لگنے والے آگ نے چلغوزوں اور زیتون کے ہزاروں درخت جلا کر راکھ کردیے جس سے سینکڑوں خاندانوں کا روزگار بھی متاثر ہوا ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت ( ایف اے او) کی ایک رپورٹ کے مطابق شیرانی میں 26 ہزار ہیکٹر (تقریباً 64 ہزار ایکڑ)پر پھیلے چلغوزوں کے جنگلات مقامی قبائلی کی ملکیت ہیں جو یہاں سالانہ تقریباً 650 میٹرک ٹن چلغوزے فروخت کرکے اڑھائی سے پونے تین ارب روپے کی آمدن حاصل کرتے ہیں۔
جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے عالمی ادارے ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے ریجنل ڈائریکٹر طاہر رشید کا کہنا ہے کہ یہ جنگلات مقامی لوگوں کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ چلغوزے کی فصل سے وہ اپنے پورے سال کے اخراجات پورا کرتے ہیں۔ اس آگ کے مقامی باشندں کی زندگی پر گہرے اثرات پڑیں گے ،علاقے کے لوگوں کی غربت اور مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔

آگ سے جنگل کو کتنا نقصان ہوا؟

محکمہ جنگلات بلوچستان کے چیف کنزرویٹر غلام محمد کا کہنا ہے کہ آگ پر بڑی حد تک قابو پالیا گیا ہے تاہم اس نے بڑا نقصان پہنچایا ہے۔ پاکستان کے خلائی ادارے ’سپارکو‘ کی جانب سے فراہم کی جانے والی سیٹلائٹ تصاویر کے مطابق سلیمان رینج میں شرغلی کے مقام پر  آگ نے تقریباً 10 ہزار 700 ایکڑ رقبے کو متاثر کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ ابتدائی تخمینہ ہے۔ آگ مکمل طور پر بجھائے جانے کے بعد نقصانات کا درست اندازہ لگانے کے لیے سروے کیا جائےگا۔
چیف کنزرویٹر فاریسٹ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ یہ بلوچستان کی حالیہ تاریخ میں لگنے والی سب سے بدترین آگ تھی۔ صوبے میں اس سے پہلے جنگل میں آتشزدگی کے واقعات ہوچکے ہیں مگر یہ پہلی ’کراؤن فائر ‘ یعنی ایسی آگ تھی جو ایک درخت کی چوٹی سے دوسری درخت کی چوٹی تک پھیلتی ہے۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے ریجنل ڈائریکٹر طاہر رشید کا کہنا ہے کہ یہ جنگلات مقامی لوگوں کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں(فائل فوٹو: ری ویو جرنل)

خیبر پختونخوا سے ملحق بلوچستان کے شمالی ضلع شیرانی میں اس سے پہلے مئی کے دوسرے ہفتے میں بھی تورغر دانا سر کے مقام پر آگ لگی تھی جس سے چلغوزے کے جنگلات کا 22 سے 25 مربع کلومیٹر حصہ متاثر ہوا تھا۔ اس آگ پر 18 مئی کو قابو پالیا گیا تھا جبکہ 13 مئی کو آتشزدگی کا ایک اور واقعہ موسیٰ خیل کے علاقے زمری میں بھی پیش آیا تھا جس پر تین دن بعد قابو پایا گیا۔
محکمہ جنگلات کے حکام کا کہنا ہے کہ تینوں واقعات میں آگ خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان سے پھیل کر بلوچستان کی حدود تک پہنچی تھی۔ موسیٰ خیل میں آگ آسمانی بجلی سے لگی تھی جبکہ شیرانی میں پیش آنے والے دونوں واقعات میں آگ لگنے کی وجوہات کا علم نہیں ہوسکا ہے۔ بلوچستان حکومت نے تحقیقات کا حکم دیا ہے۔

آگ پر کیسے قابو پایا گیا؟

شیرانی میں محکمہ جنگلات کے افسر عتیق خان کاکڑ نے اردو نیوز کو بتایا کہ 18 مئی کی شام کو شرغلی کے مقام پر لگنے والی آگ کی شدت اس لیے زیادہ تھی کہ وہاں جنگل گھنا تھا اور اس کے ساتھ خشک اور تیز ہوائیں بھی چل رہی تھیں ۔ان کا کہنا تھا کہ آگ بجھانے کی کوششوں میں محکمہ جنگلات کے اہلکاروں کے علاوہ جنگل کے رہائشیوں، مقامی رضا کاروں، پاک فوج، پی ڈی ایم اے ،لیویز فورس ، ایف سی اور دیگر اداروں کے اہلکاروں نے حصہ لیا۔
عتیق کاکڑ کے مطابق ’آگ کوہ سلیمان کے 7 ہزار سے 8 ہزار فٹ بلند ی والے حصے میں لگی تھی جہاں تک گاڑی تو دور پیدل رسائی بھی نہیں۔ اس دشوار گزار پہاڑی سلسلے میں آگ بجھانے کی کوششوں میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ کئی اہلکاروں اور رضا کاروں کے ہاتھ پاؤں جل گئے۔ کئی کی طبیعت خراب ہوئی اور انہیں ڈرپ لگانا پڑی۔ ہماری ٹیمیں دن رات کام کرکے انتہائی تھک گئیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ہماری ٹیمیں تربیت یافتہ تھیں اور نہ ہی ان کے پاس آلات تھے جس کی وجہ سے ہمیں شہر کے پٹرول پمپوں سے آگ بجھانے والے آلات(فائر ایکسٹنگ ویشر ) منگوانے پڑے۔ بے سرو سامانی کی حالت میں پتھر اور مٹی پھینک کر یا پھر درخت کی شاخیں توڑ کر اس کی مدد سے آگ بجھانے کی کوششیں کیں مگر کوئی کامیابی نہیں ملی۔
عتیق کاکڑ نے بتایا کہ پاک فوج کے ہیلی کاپٹرز نے بھی فضا سے پانی پھینک کر آگ بجھانے کی کوششیں کیں مگر وہ بھی مؤثر ثابت نہیں ہوئیں۔
’ہمارے ہاں جنگل میں اس سے پہلے اس شدت کی آگ کبھی لگی نہیں تھی اس لیے ہمیں اس سے نمٹنے کا تجربہ بھی نہیں تھا۔ ہم نےنیٹ سے ویڈیو دیکھ کر اور ماہرین سے پوچھ کر بالآخر فائر لائن بنانے کی حکمت عملی اپنائی جو کامیاب ثابت ہوئی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے جنگل کے کم گھنے اور مخصوص حصوں میں گڑھے کھودے۔ درختوں کے گرد مٹی اور پتھر کی رکاوٹیں کھڑی کیں اور درخت کی زمین کی طرف لٹکتی ہوئی شاخوں کا تین سے چار فٹ حصہ  کاٹا جس سے آگ کو مزید پھیلنے سے روکنے میں مدد ملی۔
’ایران سے بڑے فائر فائٹر طیارے کے آنے سے پہلے تک ہم نے آگ پر 80 سے 90 فیصد قابو پالیا تھا مگر طیارہ آنے کے بعد ہمیں مزید مدد ملی۔‘
چیف کنزرویٹر غلام محمد کے مطابق ’فائر فائٹر طیارے نے تقریباً 40 ٹن پانی ایک ساتھ  پھینکا جو 14 ہیلی کاپٹرز کے پانی کے برابر بنتا ہے۔ اس طرح دو سے تین راؤنڈز لگا کر طیارے نے ہماری کافی مدد کی۔ پاکستان میں یہ طیارہ نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں ایران سے مدد مانگنی پڑی۔‘
وفاقی وزیر مولانا عبدالواسع کا کہنا ہے کہ ’آئندہ کسی اور ملک سے مدد نہ مانگنی پڑے۔ اس لیے وفاقی حکومت کو فائر فائٹر طیارہ خریدنے کی تجویز دیں گے۔‘
دوسری جانب جنگلات و جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی مقامی رضاکار تنظیم اشر تحریک کے بانی سالمین خپلواک کا دعویٰ ہے کہ آگ پر اب تک مکمل قابو پایا نہیں جاسکا ہے اور ریسکیو عمل پورا کیے بغیر ہی کئی سرکاری امدادی ٹیمیں واپس چلی گئی ہیں۔

شیرانی کے جنگلات کی اہم کیوں ہیں؟

جنگل و جنگلی حیات کے امور کے ماہر ڈبلیو ڈبلیو ایف کے ریجنل ڈائریکٹر طاہر رشید کا کہنا ہے کہ ’چلغوزے کے جنگلات نان ویسٹرن ہمالیہ ریجن میں پاکستان کے علاوہ افغانستان اور بھارت میں بھی پائے جاتے ہیں۔ اس کے درخت 1800 سے 3 ہزار میٹر کی بلندی پر ہوتے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ پاکستانی چلغوزے کا سائز دنیا میں سب سے بڑا ہے۔ اس لحاظ سے اس کی اپنی اہمیت اور قدر ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’پاکستان  میں ژوب اور موسیٰ خیل کے علاوہ خیبرپختونخوا، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں بھی چلغوزے کے جنگلات پائے جاتے ہیں۔ تاہم چلغوزوں کے جنگلات کا سب سے بڑا حصہ شیرانی میں خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے سنگم پر واقع کوہ سلیمان کے پہاڑی سلسلے میں ہے۔ جہاں کئی سو سال قدیم درخت بھی موجود ہیں
’ان جنگلات سے مقامی لوگ چلغوزوں کے علاوہ بہت سی جڑی بوٹیاں، شہدوغیرہ بھی حاصل کرتے ہیں۔‘

قیمتی ترین خشک میوے کا جنگل ہونے کے باوجود پسماندگی

ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے سنہ 2014 کے ایک سروے کے مطابق سلیمان رینج میں رہنے والے 90 فیصد لوگوں کا انحصار چلغوزہ، زیتون، جڑی بوٹیوں، لکڑی کی فروخت اور مال مویشیوں پر ہے۔ یہاں شرح خواندگی صرف دو فیصد ہے۔ یہاں کے لوگ اب بھی نقل و حرکت کے لیے گدھوں، خچروں اور اونٹوں کا استعمال کرتے ہیں۔بے روزگاری کے سبب یہاں کے لوگ زیادہ تر خلیجی ممالک بالخصوص متحدہ عرب امارات میں کام کرتے ہیں۔

نایاب جنگلی حیات کا مسکن

ڈبلیو ڈبلیو ایف کی رپورٹ کے مطابق اس جنگل میں سلیمان مار خور، چیتے، لومڑی، بھیڑیے، لگڑبگڑ ، جنگلی بلیوں سمیت بڑے ممالیہ جانوروں کی 6 اقسام جبکہ پرندوں کی 27  اور مختلف اقسام کے سانپوں سمیت رینگنے والے جانوروں کی سات اقسام پائی جاتی ہیں۔چلغوزوں کے علاوہ اس جنگل میں 54 انواع و اقسام کے درخت اور پودے پائے جاتے ہیں۔

آگ کے ماحولیات اور جنگلی حیات پر اثرات

طاہر رشید نے جنگل میں آتشزدگی کے واقعہ کو بڑا سانحہ قرار دیا۔ ان کے بقول اس سانحہ کے نہ صرف علاقے کے لوگوں کے روزگار، معیشت بلکہ ماحولیات، انسانی زندگی اور جنگلی حیات پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’فضاءمیں گیسز اور آلودگی پھیلنےکے علاوہ ان جنگلات کی کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرنے کی صلاحیت میں کمی آئے گی۔اس کے ماحولیاتی  اثرات کا تخمینہ لگانے کی ضرورت ہے۔‘
’آگ کے جنگلی حیات پر بھی اثرات مرتب ہوں گے، بڑے جانور تیز رفتار ہوتے ہیں وہ ایسی مشکل صورت میں نقل مکانی کر جاتے ہیں۔ سب سے زیادہ نقصان بغیر ریڑھ کی ہڈی کے چھوٹے جانوروں اور حشرات کا ہوتا ہے جو تیزی سے حرکت نہیں کرسکتے اور درختوں سے چمٹے ہوتے ہیں یا زمین پر رینگ رہے ہوتے ہیں۔ ان کے لیے پورا ایکو سسٹم تباہ ہوجاتا ہے۔‘
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کےچلغوزہ پراجیکٹ کے ڈائریکٹر محمد یحییٰ موسیٰ خیل کا کہنا ہے کہ ’چلغوزے کے جنگلات پر پہلے ہی آبادی میں اضافے، درختوں کی کٹائی  اور مال مویشیوں کے چرنے کی وجہ سے شدید دباؤ تھا۔ اس بدترین آگ نے مزید نقصانات پہنچائے ہیں۔‘

ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے سنہ 2014 کے ایک سروے کے مطابق سلیمان رینج میں رہنے والے 90 فیصد لوگوں کا انحصار چلغوزہ، زیتون، جڑی بوٹیوں، لکڑی کی فروخت اور مال مویشیوں پر ہے (فوٹو: اردو نیوز)

ان کا کہنا تھا کہ پہلے یہاں قبائلی سطح پر جنگل کی حفاظت کا روایتی نظام نافذ تھا  جس کے کمزور پڑنے سے کافی جنگل تباہ ہوا۔ 1992 سے 2014 تک 10 لاکھ سے زائد درخت کاٹے گئے جو خیبر پختونخوا کے راستے پنجاب سمگل کرکے فرنیچر میں استعمال کیا گیا۔
’گزشتہ چند برسوں میں ایف اے او کے تعاون سے جنگلات کی افزائش کے لیے کام کیا گیا۔گزشتہ برس کے ایک اندازے کے مطابق اس جنگل میں 12سے 20 لاکھ درخت موجود تھے۔‘
یحییٰ موسیٰ خیل کے مطابق چلغوزے کا درخت 10 سال بعد پھل دینا شروع کرتا ہے۔ 10 سے 20 سال کی عمر کا درخت چار سے پانچ کلو چلغوزہ دیتا ہے۔ جتنا درخت بڑا ہوگا اس کی شاخیں زیادہ اور بڑی ہوں گی اور اتنی اس کی پیداوار زیادہ ہوگی۔یہاں پر دو سو سال پرانے درخت بھی موجود ہیں۔ تاہم زیادہ تر درخت درمیانی اور جوان عمر کے ہیں۔
طاہر رشید کے مطابق آگ سے پھیلنے والی تباہی کے اثرات کو ختم کرنے میں وقت لگے گا۔ ان سے نکلنے کے لیے بڑے پیمانے پر شجر کاری کرنا پڑے گی تاہم اس کا انحصار ماحول اور بارشوں پر ہوگا کیونکہ چلغوزے کی مصنوعی شجر کاری کی کوششیں زیادہ کامیاب ثابت نہیں ہوتیں۔
’ایسی صورت میں اس کے متبادل زیتون وغیرہ کے درخت لگانے ہوں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’وفاقی و صوبائی حکومت، اقوام متحدہ ، ڈبلیو ڈبلیو ایف  اور آئی یو سی این جیسے عالمی ادارے  مربوط طریقے سے بحالی نو کی کوششیں کریں تو وہ مؤثر ثابت ہوں گی۔‘

مستقبل کے خطرات

طاہر رشید کے مطابق بارشوں کی کمی، خشک سالی میں اضافے سمیت عالمی سطح پر ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے نتیجے میں اب جنگل میں آگ لگنے کے واقعات کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ اس لیے قلیل مدتی اقدامات کی بجائے ضلعی اور صوبائی سطح پر مؤثر حکمت عملی  بنانا ہوگی۔
’جنگلات اور نیشنل پارکس میں تعینات عملےکی ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے تربیت اور استعداد کار میں اضافے  کرنا ہوگا۔‘

سیاحت پر اثرات

کوہ سلیمان کی سب سے بلند چوٹی 11 ہزار فٹ بلند کو تخت سلیمان کہتے ہیں جسے پیغبر حضرت سلیمان سے منسوب کیا جاتا ہے۔یہاں کی خوبصورتی دیکھنے اور بلند پہاڑی سلسلے کو سر کرنے کے لیے ملک بھر لوگ آتے ہیں۔
ژوب کے رہائشی وی لاگر اور فلم ساز جان خروٹی کی کوہ سلیمان کی خوبصورتی پر بنائی گئی ڈاکیومنٹری کو محکمہ سیاحت حکومت بلوچستان نے انعام سے نوازا۔ جان خروٹی کے مطابق آگ نے اس سیاحتی مقام کے قدرتی حسن کو بھی نقصان پہنچایا ہے جس کی وجہ سے مقامی سیاحت بھی متاثر ہوگی۔ 
جان خروٹی کا کہنا ہے کہ ’جب وہ پہلی بار بادلوں سے اونچی تخت سلیمان کی چوٹی پر پہنچے تو سبزے میں گھرے اور بادلوں سے ڈھکے اس پہاڑ کے قدرتی  حسن  نے انہیں بہت متاثر کیا۔‘
’میں نے اس کا حسن پوری دنیا کو کیمرے کی آنکھ سے دکھانے کا فیصلہ کیا جس کے نتیجے میں سیاحوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ میں فخر سے سب کو دعوت دیتا تھا کہ آئیے ہمارے علاقے کی خوبصورتی دیکھیں لیکن آگ نے اس کے حسن کو گہنا دیا، اس کی سبز پوشاک کو سیاہ کر دیا۔ ہمارا غرور توڑ دیا۔

شیئر: