Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شہباز تتلہ کیس میں ایس ایس پی مفخر عدیل کو عمر قید کی سزا

شہباز تتلہ کو چھ فروری 2021 کو قتل کیا گیا تھا (فوٹو: پنجاب پولیس)
لاہور کی سیشن عدالت نے شہباز تتلہ کیس میں ایس ایس پی مفخر عدیل کو عمر قید کی سزا سنا دی ہے جبکہ ساتھی ملزمان اسد سرور بھٹی اور کانسٹیبل عرفان کو بری کر دیا ہے۔
فیصلہ جمعے کو ایڈیشنل سیشنجج شبریز اختر راجہ نے سنایا جو دلائل مکمل ہونے محفوظ کیا گیا تھا۔
ملزم مفخر عدیل کو سخت سکیورٹی میں پیشی کے لیے لایا گیا۔
مقدمے میں ملزمان پر سابق اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل شہباز تتلہ کو قتل کرنے کا الزام تھا اور فیصلہ  وقوعے کے دو سال اور تین ماہ بعد کیس کا فیصلہ سنایا گیا ہے۔
خیال رہے سابق اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل شہباز تتلہ کو سات فروری 2020 کو مفخر عدیل نے قتل کیا تھا اور لاش کو تیزاب میں پگھلا دیا تھا۔

شہباز تتلہ کیس: کب کیا ہوا؟

سات فروری 2020 کو میڈیا میں ایس ایس پی مفخر عدیل کے غائب ہونے کی خبر آئی اور اس کے ساتھ ہی ایک اور خبر بھی چلی کہ سابق اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب شہباز تتلہ بھی غائب ہیں۔  

مفخر عدیل نے واردات کے لیے گھر کرائے پر لیا تھا (فوٹو: پنجاب پولیس)

 پولیس نے مقدمات درج کر کے تلاش شروع کی تو جلد ہی جلد اندازہ ہو گیا کہ یہ دونوں گمشدگیوں کا آپس میں کچھ تعلق ہے۔
پولیس نے واقعات کو ملا کر دیکھنا شروع کیا تو انکشاف ہوا کہ دونوں افراد ایک دوسرے کے جگری دوست ہیں اور ان میں سے ایک نے دوسرے کو قتل کر دیا ہے۔ 
صرف قتل ہی نہیں کیا بلکہ اس کی لاش کو تیزاب میں جلا کر پگھلا بھی دیا۔
مزید تفتیش پر معلوم ہوا کہ قتل پولیس افسر مفخر نے کیا انہوں نے واردات کے لیے لاہور کے علاقے فیصل ٹاون میں ایک گھر خصوصی طور پر کرائے پر لیا اور چھ فروری 2020 کی شام کو اس گھر میں پہلے انہوں نے شہباز تتلہ کو قتل کیا اور پھر ان کی لاش کو تیزاب سے بھرے ڈرم میں ڈال کر پگھلا دیا۔  
پولیس کو حقائق معلوم ہونے تک مفخر عدیل شمالی علاقہ جات فرار ہو چکے تھے۔ بعد ازاں انہوں نے اپنی کچھ شرائط کے بدلے گرفتاری پیش کر دی۔

شہباز تتلہ ایس ایس پی مفخر عدیل کے گہرے دوست تھے (فوٹو: پنجاب پولیس)

مقدمے کے پراسیکیوٹر حبیب الرحمان نے اردو نیوز کو بتایا تھا کہ ملزم نے لاش کو تیزاب میں پگھلایا اور ثبوت مٹانے کے لیے فرش کو دھلوا دیا۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے پولیس کے عملے کے افراد کو بھی استعمال کیا۔
پولیس حقائق تک کیسے پہنچی؟ 
سینیئر افسر کی گمشدگی کے ساتھ جب شہباز تتلہ کی گمشدگی بھی نتھی ہوئی تو تفتیشی اداروں نے دونوں کے قریبی دوستوں سے پوچھ گچھ کا آغاز کیا۔
 انہی دوستوں میں ایک اسد بھٹی بھی تھے جو قاتل اور مقتول دونوں کے ہی قریب سمجھے جاتے تھے۔
تفتیش کے دوران اسد بھٹی نے جو بیان پولیس کو دیا اس کے مطابق انہوں نے مفخر عدیل کے کہنے پر ڈرم اور تیزاب کا بندوبست کیا۔
اس کیس کے ایک تفتیش کار پولیس افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا تھا کہ واردات کے تیسرے دن ان پر حقائق واضح ہو گئے تھے۔ 

دونوں افراد کی پراسرار گمشدگی پر تحقیقات شروع ہوئیں تو کئی انکشافات ہوئے (پنجاب پولیس)

پولیس نے ملزمان کو تیزاب بیچنے والے تاجر کو بھی حراست میں لیا۔
پولیس نے حقائق جاننے کے باوجود ان کو خفیہ رکھا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ واقعے کے بارے میں معلومات عام نہ ہونے کی وجہ سے مفخر عدیل یہ سمجھتے ہوئے باہر آ جائیں گے کہ پولیس شاید کھوج نہیں لگا پائی۔  
ایس ایس پی مفخر عدیل کو کیسے گرفتار کیا گیا؟
پولیس کی یہ خوش فہمی جلد ہی ختم ہو گئی کہ ملزم خود ہی باہر آ جائے گا۔
تفتیشی ٹیم کے رکن کے مطابق جب کافی انتظار کے بعد بھی ملزم کے سامنے آنے کے امکانات نظر نہیں آئے تو پولیس حکام نے فیصلہ کیا کہ مقدمے کے حقائق کی تشہیر کر کے پوری قوت سے ملزم کا پیچھا کیا جائے اور وہ جہاں کہیں بھی ہو اس کو گرفتار کر لیا جائے۔
یہ فیصلہ ہوتے ہی پولیس نے اسد بھٹی کی گرفتاری ظاہر کر دی اور اپنا روایتی طریقہ استعمال کرتے ہوئے مفخر عدیل کے بیٹے اور والدین کو حراست میں لے لیا۔ جس کے بعد مارچ کے وسط میں ملزم سامنے آ گیا۔
مقدمے کے تفتیشی افسر کے مطابق مفخر نے اعلیٰ ترین سطح کے پولیس افسران سے خود رابطہ کیا اور گرفتاری دینے کی پیش کش کی۔ لیکن ایک عجیب شرط رکھی کہ اس کی گرفتاری کے بعد تحقیقاتی ٹیم ان پر تشدد نہیں کرے گی۔ افسران کی یقین دہانی کے بعد ملزم نے خود کو پولیس کے حوالے کر دیا۔
 پولیس افسر اپنے جگری دوست کا قاتل  کیوں بنا؟ 
یہ معمہ بھی ایس ایس پی مفخر عدیل نے اپنی گرفتاری کے بعد خود ہی حل کیا۔ تفتیشی ٹیم کو دیے گئے ان کے پہلے بیان میں انہوں نے الزام عائد کیا کہ شہباز تتلا نے ان کی ایک زوجہ کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کی کوشش کی تھی۔

عدالت نے مرکزی ملزم کو عمرقید کی سزا سنائی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

ان کے تحریری بیان کے مطابق’میری دو بیویاں ہیں ایک بیوی کے ساتھ ایک دفعہ جھگڑا ہوا تو وہ روٹھ کر چلی گئی، اس کے بعد وہ سیدھی شہباز تتلا کو ملی۔ وہ اس غرض سے گئی تھی کہ وہ قریبی دوست ہونے کی وجہ سے صلح کی کوشش کر ے گا لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ شہباز نے موقعہ سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔‘    
پولیس کو دیے گئے تحریری بیان میں وہ کہتے ہیں کہ ’میری بیوی نے یہ بات واپس آ کر میری دوسری بیوی کو بتائی۔ جس کے بعد اس بات کا انکشاف ہوا کہ وہ میری دوسری بیوی کو بھی ورغلانے کی کوشش کر چکا ہے۔‘
’ان دونوں نے مجھے بتایا تو اس کے بعد میں نے فیصلہ کر لیا کہ اس سے بدلہ لینا ہے۔‘  
تاہم عدالت میں فرد جرم عائد ہوتے وقت انہوں نے اس قتل کا سرے سے ہی انکار کر دیا۔  
قاتل پولیس افسر اور مقتول وکیل آپس میں کتنے گہرے دوست تھے؟
ایک پولیس افسر کے مطابق دونوں گہرے دوست تھے، شہر کی دعوتوں اور پارٹیز میں اکھٹے آتے جاتے تھے۔ حتیٰ کہ ایک دوسرے کی گاڑیاں استعمال کرنا اور ایک دوسرے کے دفاتر میں بھی ان کا آنا جانا تھا۔ اس واردات سے دو مہینے قبل دونوں نے بہت زیادہ وقت اکھٹے گزارا۔ مفخر عدیل نے فیصل ٹاؤن کے علاقے میں جو گھر کرائے پر لیا تھا، اس میں ہر دوسرے تیسرے دن یہ اکھٹے ہوتے تھے۔
تاہم شہباز تتلا کے قریبی افراد کا کہنا ہے کہ یہ گہری دوستی کی کہانی مقدمے پر اثر انداز ہونے کے لیے گھڑی جا رہی ہے اور شہباز تتلا کے مفخر عدیل سے اتنے قریبی مراسم نہیں تھے۔  

ایس ایس پی مفخر عدیل نے 10 مارچ کو خود کو پولیس کے حوالے کیا (فوٹو: اے ایف پی)

مقدمے میں کب کیا ہوا؟
اس پراسرار  قتل سے متعلق پہلی باقاعدہ اطلاع قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس وقت موصول ہوئی جب فروری 2020 کو لاہور کے  تھانہ نصیرآباد میں سابق اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل شہباز تتلا کے غائب ہونے کا مقدمہ درج کروایا گیا۔
پولیس نے مقدمہ درج کر کے تفتیش کا آغاز کیا تو شہباز تتلا کے آخری رابطے ایس ایس پی مفخرعدیل کے ساتھ سامنے آئے جس کے بعد مفخر سے بھی اس حوالے سے پوچھ گچھ کی گئی۔
 تاہم 10 فروری کو ایس ایس پی مفخر عدیل بھی اچانک غائب ہو گئے، ان کے غائب ہونے کا مقدمہ بھی تھانہ نصیر آباد میں درج کر لیا گیا۔
ایک مہینہ غائب رہنے کے بعد 10 مارچ کو بالآخر انہوں نے شہباز تتلا مسنگ کیس میں پولیس کے سامنے سرنڈر کر دیا۔ پولیس نے ان سے 14 روز تک تفتیش کی اور انہیں 25 مارچ کو تفتیش مکمل ہونے پر جیل بھیج دیا گیا۔
اسی دوران پولیس نے چالان (مقدمے کی رپورٹ) تیار کیا اور 8 مئی کو اپنی حتمی تفتیش عدالت کے روبرو پیش کر دی۔
7 اکتوبر 2020 کو لاہور کی ایک سیشن عدالت نے ایس ایس پی مفخر عدیل اور ان کے دوست اسد بھٹی پر قتل کی فرد جرم عائد کی۔

شیئر: