Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دعا زہرہ بازیابی کیس: سندھ ہائی کورٹ میں آج کیا ہوا؟

سندھ ہائی کورٹ نے دعا زہرہ بازیابی کیس کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا ہے۔ تین صفحات پر مشتمل حکم نامے میں دعا زہرا کو اپنی مرضی سے فیصلہ کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
بدھ کو سنائے گئے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’بیان حلفی کی روشنی میں عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ دعا زہرہ اپنی مرضی سے جس کے ساتھ جانا چاہے یا رہنا چاہے رہ سکتی ہے۔‘
حکم نامے میں واضح کیا گیا ہے کہ تمام شواہد کی روشنی میں اغواء کا مقدمہ نہیں بنتا۔
حکم نامہ جاری کرتے ہوئے عدالت نے اغوا کا مقدمہ نمٹا دیا۔
عدالت نے کیس کے تفتیشی افسر کو کیس کا ضمنی چالان جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔
عدالت نے کہا ہے کہ دعا زہرا کو لاہور ہائیکورٹ میں پیش کرنا سندھ حکومت کی صوابدید ہے۔
عدالت نے ٹرائل کورٹ کو قانون کے مطابق کارروائی جاری رکھنے کا بھی کہا ہے۔
اس سے قبل ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے دعا زہرہ کی میڈیکل رپورٹ عدالت کے سامنے پیش کی۔
رپورٹ میں عدالت کو بتایا گیا کہ دعا زہرہ کی عمر تقریباً 17 برس ہے۔ جس پر درخواست گزار کے وکیل نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ تمام دستاویزات کے مطابق لڑکی کی عمر 14 برس ہے۔
جسٹس جنید غفار نے عدالت میں پیش کیے گئے دلائل پر ریمارکس دیے کہ ’یہاں بازیابی کا کیس درج تھا جس کی سماعت ہم کر رہے ہیں۔ یہاں پیش کیے گئے یہ دلائل ٹرائل کورٹ میں دکھائے جائیں۔ یہاں بازیابی کا کیس تھا جو لڑکی  کو پیش کرنے پر ختم ہوگیا۔‘
ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ لاہور ہائی کورٹ میں ظہیر کے والدین نے کیس رجسٹرڈ کروایا ہے جس کی سماعت 10 جون کو لاہور میں ہے اور دعا زہرہ اور ظہیر کو اس کیس میں  لاہور ہائی کورٹ کے سامنے پیش ہونا ہے تاکہ اس کیس کو نمٹایا جائے۔
دوران سماعت عدالت نے دعا زہرہ سے ایک بار پھر پوچھا کہ کیا وہ اپنے والدین سے ملنا چاہتی ہیں؟ جس پر دعا زہرہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اور کہا کہ میں نہیں ملنا چاہتی۔
سندھ ہائیکورٹ نے دعا زہرہ سے ان کی والدہ کو چیمبر میں ملاقات کی اجازت دی جس کے بعد دعا کی اپنی والدہ سے ملاقات ہوئی۔
دعا زہرہ سے ملاقات کے دوران دعا زہرا کی والدہ زار و قطار روتے ہوئے بے ہوش ہوگئیں۔
دعا زہرہ کی والدہ نے ملاقات کے بعد میڈیا کو بتایا کہ میری بیٹی نے ملاقات میں کہا کہ وہ ہمارے ساتھ گھر جانا چاہتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’میری بیٹی نے مجھے بتایا ہے کہ وہ اب اپنا بیان عدالت میں دے گی کہ اسے اپنے گھر جانا ہے۔‘
یاد رہے کہ رواں برس 16 اپریل کو دعا زہرہ کے کراچی سے لاپتا ہونے کا واقعہ رپورٹ ہوا تھا۔
اس واقعے کے بعد ایک ویڈیو میں دعا زہرہ نے صوبہ پنجاب میں ظہیر نامی لڑکے سے شادی کرنے کا اعتراف کیا تھا اور 26 اپریل کو انہوں نے پولیس کے سامنے بیان دیا تھا کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ رہنا چاہتی ہیں۔
سندھ ہائی کورٹ میں درج اغوا کے مقدمے میں عدالت نے پولیس کو دعا زہرہ کو پیش کرنے کا حکم دیا تھا اور مقررہ وقت پر دعا زہرہ کو پیش نہ کرنے پر آئی جی سندھ کو بھی ہٹایا گیا۔

سندھ ہائیکورٹ کی اجازت کے بعد دعا زہرہ سے ان کی والدہ کی چیمبر میں ملاقات ہوئی (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

بعد ازاں پنجاب پولیس نے دعا زہرہ اور ان کے شوہر کو ضلع بہاولنگر کی تحصیل چشتیاں سے حراست میں لیا تھا۔
پنجاب پولیس کے ترجمان کے مطابق ’دعا زہرہ اور ان کے شوہر ظہیر نے اپنے بھائی کے سسرال میں ایک شخص کے گھر پناہ لے رکھی تھی۔‘
پنجاب سے گرفتاری کے بعد دعا زہرہ اور ان کے شوہر کو کراچی پولیس کے حوالے کیا گیا اور سندھ ہائی کورٹ میں درج مقدمے کی سماعت کے لیے دونوں کو کراچی منتقل کیا گیا۔
رواں ہفتے پیر کے روز سندھ ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ کے سامنے دعا زہرہ اور ظہیر کو پیش کیا گیا۔ عدالت نے دو روز میں لڑکی کے عمر کے تعین کے لیے میڈیکل کرنے کے احکامات جاری کرتے ہوئے دعا زہرہ کو شیلٹر ہوم بھیج دیا تھا۔
عدالت کے حکم پر لڑکی کا میڈیکل کروایا گیا۔
پولیس سرجن ایج سرٹیفکیٹ کے مطابق دعا زہرہ کی عمر کا تعین سول ہسپتال کراچی کی میڈیکل لیگل افسر ڈاکٹر لاریب گل نے کیا جبکہ چیف ریڈیالوجسٹ ڈاکٹر صبا جمیل نے رپورٹ میں اپنی رائے شامل کی۔
رپورٹ میں دعا کی عمر16 سے 17 سال کے درمیان بتائی گئی تھی۔
اس میڈیکل رپورٹ کو دعا زہرہ کے والد نے چیلنج کیا ہے۔
مہدی علی کاظمی نے ہیلتھ سیکریٹری سندھ کے نام خط لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’میری شادی 2005 میں ہوئی اور دعا کی پیدائش تین سال بعد ہوئی۔ دعا کی عمر 16 اور 17 سال کے درمیان ہونا غلط ہے۔ میری بیٹی کی عمر ابھی 14 برس ہے اور قانون کے مطابق اس کی شادی نہیں ہو سکتی۔‘

شیئر: