Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کراچی میں ماضی کی مقبول سیاسی جماعتوں کے لیے میدان سکڑ رہا ہے؟

ضمنی الیکشن میں ایم کیو ایم پاکستان کے محمد ابوبکر کافی مشکل سے جیت پائے (فائل فوٹو: ٹوئٹر)
کراچی کی سیاست میں ماضی کی نمایاں جماعتوں کے لیے مشکلات بڑھنے لگی ہیں۔ شہر میں تین دہائیوں سے اکثریت رکھنے والی جماعت متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم) کے لیے انتخابات میں کامیابی مشکل ترین مرحلہ بنتا جا رہا ہے۔
ملک کی بدلتی سیاسی صورت حال اور ایم کیو ایم کی داخلی دھڑے بندی کے باعث اس جماعت کو اپنے مضبوط حلقوں کی نشستیں جیتنے کے لیے بھی جتن کرنے پڑ رہے ہیں۔
جمعرات کو کراچی کے علاقے لانڈھی کورنگی میں ضمنی انتخاب میں ایم کیو ایم پاکستان کو کامیابی تو حاصل ہوئی لیکن وہ کامیابی ماضی کی کامیابیوں کے مقابلے میں نہ ہونے برابر ہے۔
کراچی میں یہ علاقہ کبھی ایم کیو ایم کا مضبوط حلقہ ہوا کرتا تھا جہاں سے یہ جماعت بھاری اکثریت سے کامیاب ہوا کرتی تھی لیکن گزشتہ روز صرف 65 ووٹوں سے اسے کامیابی مل سکی۔
حال ہی میں پنجاب کی سیاست پر اثر انداز ہونے والی تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کراچی میں بھی ایک بڑی جماعت کے طور پر ابھر رہی ہے۔ کراچی کے حلقہ این اے 240 کے ضمنی انتخاب میں ٹی ایل پی کا امیدوار کراچی میں برسوں سے سیاست کرنے والی جماعتوں پر حاوی نظر آیا۔
الیکشن نتائج میں ابتدائی طور پر حاصل ہونے والی برتری آخر میں کم ہوتی چلی گئی اور ایم کیو ایم کے امیدوار کو بہت کم ووٹوں سے کامیابی ملی۔
‘مہاجر ووٹ تقسیم ہونے کی وجہ سے ایم کیو ایم اکثریت کھو رہی ہے‘
تجزیہ کار رفعت سعید کے مطابق ایم کیو ایم کی دھڑے بندی کا فائدہ متبادل جماعتوں کو ہو رہا ہے۔ مہاجر ووٹ تقسیم ہونے کی وجہ سے ایم کیو ایم سندھ کے شہری علاقوں سے اکثریت کھو رہی ہے۔‘
 

ٹی ایل پی کے شہزادہ شہباز 10618 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے (فوٹو: ٹوئٹر)

رفعت سعید کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم کی دھڑے بندی نے ایم کیو ایم کو اس منزل تک پہنچا دیا ہے کہ اپنے مضبوط ووٹ بینک کے حلقے سے وہ صرف 65 ووٹ سے کامیابی حاصل کر پائی ہے۔
’مجموعی طور اگر ووٹ ملا کر دیکھا جائے تو ایم کیو ایم پاکستان، ایم کیو ایم حقیقی اور پی ایس پی کے23863  ووٹ بنتے ہیں جبکہ کامیاب امیدوار کو ٹف ٹائم دینے والے امیدوار کے ووٹ 10 ہزار سے اوپر ہیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ایم کیو ایم کی دھڑے بندی کا فائدہ مخالفین کو ہو رہا ہے۔‘
’یہی صورت حال بلدیہ ٹاؤن میں تحریک انصاف کے رہنما فیصل واوڈا کی خالی نشست پر بھی دیکھی گئی تھی۔‘
 2018 کے انتخابات میں بھی سندھ کے شہری حلقوں کی کئی نشستوں سے ایم کیو ایم پاکستان کے امیدوار ناکام جبکہ بیشتر حلقوں سے تحریک انصاف کے امیدوار کامیاب ہوگئے تھے۔

’ٹی ایل پی سندھ کی سیاست میں بھی اہم کردار ادا کرے گی‘

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے آئندہ بلدیاتی انتخابات میں ٹی ایل پی پنجاب کے ساتھ ساتھ سندھ کی سیاست میں بھی اہم کردار ادا کرے گی اور کراچی سمیت سندھ کے کئی علاقوں میں ایم کیو ایم پاکستان، پی ایس پی، مہاجر قومی موومنٹ، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور جے یو آئی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے اثر و رسوخ والے حلقوں میں اپنی موجودگی کا احساس دلائے گی۔

ٹی ایل پی کے سربراہ سعد رضوی این 240 کی الیکشن مہم میں سرگرم رہے (فوٹو: ٹوئٹر)

واضح رہے کہ حلقہ این اے 240 کی قومی اسمبلی کی نشست ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما محمد اقبال کے انتقال کی وجہ سے خالی ہوئی تھی اور اس حلقے سے وہ عام انتخابات میں 61 ہزار ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے۔

شیئر: