Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایف اے ٹی ایف کا اعلان رات کو، کریڈٹ لینے کی جنگ صبح سے

ایف اے ٹی ایف نے اپنی ٹیم کو پاکستان بھیجنے کا اعلان کیا ہے (فوٹو: ایف اے ٹی ایف)
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی جانب سے جمعے کی رات کو اعلان کیا گیا کہ پاکستان نے 34 نکات پر مشتمل دو ایکشن پلانز پر کامیابی سے عمل درآمد کرلیا ہے۔
اس پیش رفت کے بعد یہ امکان پیدا ہوا کہ گذشتہ چار برسوں سے گرے لسٹ پر موجود پاکستان آج تو نہیں البتہ اکتوبر 2022 میں گرے لسٹ سے نکل سکتا ہے۔
حقائق کی دنیا میں ہونے والی پیش رفت سے متضاد بات اس سے کہیں پہلے نہ صرف سوشل میڈیا پر شیئر ہوئی بلکہ اس کے بعد ’گرے لسٹ سے نکلنے‘ کا کریڈٹ لینے کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔
سابق وزیراعظم عمران خان کے چیف آف سٹاف شہباز گِل نے اصل اعلان سے آٹھ گھنٹے قبل دعویٰ کیا کہ ’پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکال دیا گیا ہے۔‘
انہوں نے اپنی ٹویٹ میں ’پاکستان کو مبارک باد‘ دیتے ہوئے سیاسی مخالفین کو بھی آڑے ہاتھوں لیا۔ 

شہباز گِل کی ٹویٹ کے بعد جہاں پی ٹی آئی کے حامی سوشل میڈیا صارفین نے عمران خان، حماد اظہر اور باقی ٹیم کا شکریہ ادا کرتے ہوئے انہیں اس کا کریڈٹ دیا وہیں کچھ افراد نے موقف اپنایا کہ ’جب اعلان ہی نہیں ہوا تو پھر کریڈٹ کیسا؟‘
عبدالقیوم بھٹی نے پی ٹی آئی حکومت کی کارکردگی کا دفاع کرتے ہوئے تبصرہ کیا کہ ’عمران خان کی حکومت نے فیٹف کی تمام کڑی شرائط پوری کیں جس کی بدولت آج پاکستان گرے لسٹ سے باہر نکل آیا۔‘

متعدد صارفین نے شہباز گل کو’غلط خبر شیئر کرنے‘ سے باز رہنے کا مشورہ دیا۔ ندا یاسر نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ ’شہباز گل صاحب جو بات ابھی ہوئی ہی نہیں آپ نے اس کی خبر بھی دے دی، یہ کون سی ٹیکنالوجی ہے؟‘
سعد مقصود نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ ’اس کا کریڈٹ جو دل کرے لے مگر اس لسٹ سے نکلنے کے لیے پاکستان نے جو جو قوانین بنائے، غلامی کی زنجیریں پاؤں میں پہنیں اس کا کریڈٹ بھی لینا چاہیے۔‘

موجودہ حکومت بالخصوص مسلم لیگ ن کے حامیوں نے دعویٰ کیا کہ جو کام گذشتہ حکومت چار برس میں نہیں کر سکی وہ موجودہ اتحادی حکومت نے چند ماہ میں کر دکھایا ہے۔
 پی ٹی آئی کے حامیوں کے جواب میں مسلم لیگ ن کے حامی ٹویپس نے گرے لسٹ سے ملک کے اخراج کو اپنی حکومت کی کامیابی کے طور پر پیش کرنے کا سلسلہ جاری رکھا تو دیگر افراد کی طرح ٹیلی ویژن میزبان کامران خان نے بھی انہیں ایسا کرنے سے منع کیا۔

ٹی وی میزبان حامد میر نے ’اصل کہانی‘ کے عنوان سے کی گئی ٹویٹ میں لکھا کہ ’پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکالنے کے لیے جی ایچ کیو میں ڈی جی ایم او کی سربراہی میں 2019 میں سپیشل سیل قائم کیا گیا اس وقت صرف پانچ نکات پر پیش رفت تھی۔ اس سیل نے 30 سے زائد وزارتوں اور ایجنسیز کے درمیان کوآرڈینیشن کی اور تمام 34 نکات پر عمل درآمد کروایا۔‘

پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن کے حامیوں کی جانب سے کسی باقاعدہ اعلان سے قبل ہی کریڈٹ لینے اور مخالفین کی جانب سے ان پر اعتراضات کا سلسلہ جمعے کو دن بھر سوشل ٹائم لائنز پر نمایاں رہا۔ اسی دوران وزیر مملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر کا بیان سامنے آیا جس میں انہوں نے حتمی اعلان سے قبل قیاس آرائیوں سے گریز کا مشورہ دیا، ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ’جس نے جتنا کریڈٹ لینا لے لے، ہمارا کام پاکستان کو مشکل سے نکالنا ہے۔
حنا ربانی کھر کے بیان کے بعد پی ٹی آئی حامیوں نے انہیں بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ ایسی ہی ایک ٹویٹ میں دو تصاویر شیئر کرتے ہوئے لکھا گیا کہ ’حنا ربانی کھر انسداد منی لانڈرنگ اور اینٹی ٹیررازم بل پیش کیے جانے کے موقع پر احتجاجاً اسمبلی سے واک آؤٹ کر رہی ہیں۔‘

جرمنی میں موجود پاکستان کی وزیر مملکت برائے خارجہ امور نے بعد میں ایک ویڈیو پیغام میں بتایا کہ ’ایف اے ٹی ایف نے ہمیں کلیئر کردیا ہے، اب گرے لسٹ سے نکلنے کا طریقہ کار شروع ہوچکا ہے۔‘
متعدد واٹس ایپ گروپس میں ایک مخصوص حلقے کی جانب سے ’پاکستان کے ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے امکان‘ پر بات کرتے ہوئے بتایا گیا کہ کس عہدے دار کی سربراہی میں کون سے محکمے نے اس منزل تک پہنچنے کے لیے اپنا کردار ادا کیا ہے۔
پی ٹی آئی حکومت کے سابق وفاقی وزیر حماد اظہر نے شہباز گل کی بات کی براہ راست تردید تو نہ کی لیکن فیٹف کے طریقہ کار کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھا کہ ’ایف اے ٹی ایف کے طریقہ کار کے مطابق، گرے لسٹنگ سے کسی ملک کو ہٹانے سے پہلے آن سائٹ دورہ کیا جاتا ہے۔ٗ

برلن سے جاری ہونے والے ایف اے ٹی ایف کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے دونوں ایکشن پلان کے 34 آئٹمز پر عمل مکمل درآمد کرلیا ہے، ادارے کی ٹیم پاکستان کا دورہ کر کے شرائط کی تکمیل کی تصدیق کرے گی۔‘
’دہشت گردی کی مالی معاونت روکنے میں ناکامی‘ کی پاداش میں جون 2018 میں پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالا گیا تو 2010 کے بعد سے ایسا تیسری مرتبہ ہوا تھا۔

شیئر: