Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فن لینڈ اور سویڈن کی رکنیت، نیٹو ترکی پر ’دباؤ‘ ڈالے گا

تین روزہ اجلاس کی میزبانی سپین کر رہا ہے۔ (فوٹو: روئٹرز)
یورپ کے فوجی اتحاد نیٹو کے رہنما منگل کو شروع ہونے والے تین روزہ اجلاس میں ترک صدر رجب طیب اردوغان سے فن لینڈ اور سویڈن کے خلاف ویٹو واپس لینے کا مطالبہ کریں گے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق روس کی یوکرین میں جنگ کے سائے میں میڈرڈ میں شروع ہونے والا اجلاس افغانستان میں ناکامیوں اور سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں اندرونی اختلافات کے بعد، جنہوں نے واشنگٹن کو ایٹمی اتحاد سے نکالنے کی دھمکی دی تھی، انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
سفارت کاروں کے مطابق منقسم تنظیم کے درمیان مذاکرات ابھی بھی جاری ہیں، لیکن رہنماؤں کو امید ہے کہ یوکرین کی مزید فوجی امداد، مشترکہ دفاع کے اخراجات میں اضافے، چین کی ابھرتی ہوئی فوجی طاقت کے لیے نئی حکمت عملی اور بالٹک کے دفاع کے لیے مزید فوجیوں کے تیار رہنے پر سب رضامند ہو جائیں گے۔
سپین جس کے بادشاہ رہنماؤں کے اعزاز میں ضیافت کا اہتمام کریں گے، جنوبی کنارے پر تارکین وطن کی بڑھتی تعداد اور افریقہ کے خطے ساحل میں عسکریت پسند گروہوں پر توجہ مرکوز کرنے پر زور دے رہا ہے۔
امید کی جا رہی ہے کہ آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جاپان اور جنوبی کوریا کے رہنما اس سربراہی اجلاس کے ایک سیشن میں شرکت کریں گے، جو چین کا مقابلہ کرنے کے لیے ہند-بحرالکاہل کے علاقے میں مغربی موجودگی کے لیے ایک وسیع امریکی حکمت عملی کا حصہ ہے۔

روس کی یوکرین میں جنگ کے سائے میں میڈرڈ میں شروع ہونے والا اجلاس انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ (فوٹو: روئٹرز)

نیٹو کے سیکریٹری جنرل جینز سٹولٹن برگ نے گزشتہ ہفتے کہا تھا ’ہم اس بات کو یقینی بنانے کے لیے مزید کوشش کریں گے کہ ہم ہر وقت اور کسی بھی خطرے کے خلاف اتحادی علاقے کے ہر انچ کا دفاع کر سکیں۔‘
اگرچہ برطانوی اور امریکی حکام نے خطے میں مستقل کثیر القومی افواج کے لیے بالٹک کی درخواست کے خلاف مشورہ دیا ہے۔
جرمنی پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ اگر روس نیٹو کے علاقے پر قبضہ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ لیتھوانیا کے دفاع کے لیے مزید فوجی تیار کرے گا اور توقع ہے کہ برطانیہ ایسٹونیا کے لیے بھی ایسا ہی کرے گا، جبکہ لٹویا کینیڈا کی طرف دیکھ رہا ہے کہ وہ وہاں مزید فوجی بھیجے۔

ترکی کی مخالفت

نیٹو سنہ 1949 میں سوویت یونین کا مقابلہ کرنے کے لیے قائم کیا گیا تھا اور کسی بھی معاہدے کے تحت یوکرین کا دفاع اس کی ذمہ داری نہیں ہے کیونکہ سابق سوویت جمہوریہ نیٹو کا رکن نہیں ہے۔
لیکن روسی صدر ولادیمیر پوتن کے 24 فروری کے حملے نے جغرافیائی سیاسی تبدیلی کو جنم دیا ہے کیونکہ غیر جانبدار ممالک فن لینڈ اور سویڈن نے نیٹو میں شمولیت کی کوشش کی ہے اور یوکرین باضابطہ طور پر یورپی یونین میں شامل ہونے کا امیدوار بن گیا ہے۔
اگر یہ دونوں ممالک تنظیم میں شامل یو جاتے ہیں تو یہ اتحاد وسعت اختیار کر لیں گا جسے روسی رہنما روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
تاہم ترکی ہیلسنکی اور سٹاک ہوم کی کرد عسکریت پسندوں کی حمایت اور انقرہ پر ہتھیاروں کی پابندی کی وجہ سے دونوں ممالک کی شمولیت کے خلاف ہے۔

ترکی ہیلسنکی اور سٹاک ہوم کی کرد عسکریت پسندوں کی حمایت اور انقرہ پر ہتھیاروں کی پابندی کی وجہ سے شمولیت کے خلاف ہے۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

تینوں ممالک اور نیٹو کے سٹولٹن برگ کے درمیان ہونے والی بات چیت میں شامل ترک حکومت کے ایک اہلکار نے روئٹرز کو بتایا کہ سربراہی اجلاس میں کسی معاہدے تک پہنچنا مشکل ہو گا۔ سویڈن اور فن لینڈ کو پہلے ترکی کے تحفظات کو دور کرنا ہو گا۔
’ملاقاتیں ہوئیں، لیکن بدقسمتی سے وہ اقدامات نہیں کیے جا رہے ہیں جن کی ہمیں توقع تھی۔‘

شیئر: