Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

یوکرین میں ایک طویل جنگ کے لیے تیار رہنا چاہیے: نیٹو چیف

جینز سٹولٹنبرگ کا کہنا تھا کہ یورپی ممالک کو یوکرین کی حمایت سے دستبردار نہیں ہونا چاہیے (فوٹو: اے ایف پی)
نیٹو کے سربراہ جینز سٹولٹنبرگ نے کہا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ یوکرین کی جنگ کئی سال تک چلے جبکہ یورپی یونین کی جانب سے یوکرین کی بلاک میں شمولیت کی سفارش کے بعد روسی فوج نے حملے مزید شدید کر دیے ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق نیٹو کے سیکریٹری جنرل جینز سٹولٹنبرگ نے ایک جرمن اخبار سے بات کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ یوکرین کے فوجیوں کو جدید ہتھیاروں کی فراہمی سے ڈونباس کو روسی فوج سے چھڑانے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم کو اس کے لیے تیار رہنا چاہیے کہ جنگ برسوں تک چل سکتی ہے، ہم کو یوکرین کی حمایت سے دستبردار نہیں ہونا چاہیے۔ چاہے اس پر کتنے ہی بھاری اخراجات کیوں نہ ہوں، جن میں توانائی اور کھانے پینے کے سامان کی قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے بھی اضافہ ہو رہا ہے۔‘
برطانوی وزیراعظم بورس جانسن، جنہوں نے جمعے کو کیئف کا دورہ کیا تھا، نے بھی اس سے ملتے جلتے خیالات کا اظہار کیا اور اتوار کو روزنامہ سنڈے ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ایک طویل جنگ کے لیے تیاری کی ضرورت ہے۔

روس نے 24 فروری کو پڑوسی ملک یوکرین پر حملہ کیا تھا۔ (فوٹو: روئٹرز)

اسی طرح سنیچر کو صحافیوں سے گفتگو میں انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہمیں روس کے مقابلے میں یوکرین کو تھکاوٹ کا شکار نہیں ہونے دینا چاہیے جو مسلسل آگے بڑھ رہا ہے۔
’اتحادیوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ یوکرین کو دکھائیں کہ وہ اس کا ساتھ دینے کے لیے طویل عرصے تک موجود ہیں۔‘
بورس جانسن نے یہ بھی کہا کہ ’اس کا مطلب یہ ہو گا کہ یوکرین حملہ آور کے مقابلے میں ہتھیار اور دوسرے سامان کے علاوہ تربیت بھی تیزی سے حاصل کر رہا ہے۔‘
جانسن کے مطابق ’وقت سب سے اہم ہے، ہر چیز کا انحصار اس امر پر ہو گا کہ آیا روس کی حملوں کی صلاحیت کے مقابلے میں یوکرین اپنی سرزمین کا دفاع کرنے کی طاقت کو کس قدر بڑھاتا ہے۔‘

یوکرین کے صدر نے مغربی اتحادیوں سے مزید اسلحے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ (فوٹو: روئٹرز)

جمعے کو یوکرین کوایک اہم حوصلہ اس وقت ملا جب یورپی کمیشن کی جانب سے اسے یورپی یونین کے امیدوار کی حیثیت دینے کی سفارش سامنے آئی، اور یہ امید کی جا رہی ہے کہ یورپی یونین میں شامل ممالک اسی ہفتے ہونے والے سربراہی اجلاس میں اس کی توثیق بھی کر دیں گے۔
اس سے یوکرین اس خواہش کی تکمیل کی طرف گامزن ہو جائے گا جو روس کے حملے سے قبل وہاں پائی جاتی ہے، تاہم ہو سکتا ہے کہ حقیقی رکنیت ملنے میں کئی سال لگ جائیں۔
24 فروری کو روس نے پڑوسی ملک یوکرین پر حملہ کیا تھا، جس کے بعد سے مسلسل لڑائی جا رہی ہے۔

شیئر: