Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جوہری توانائی سے چلنے والا آسمانی ہوٹل حقیقت بن سکتا ہے؟

یہ ہوٹل صرف ابھی ایک تصواراتی خاکہ ہے۔ (تصویر: یوٹیوب سکرین شاٹ)
دنیا بھر میں سوشل میڈٰیا پلیٹ فارمز پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں ایک دیو ہیکل ہوائی جہاز کو دیکھا جاسکتا ہے جس کا سائز اور ڈیزائن عام جہازوں سے بہت مختلف ہے۔
یہ دیو ہیکل جہاز ابھی حقیقت نہیں بنا بلکہ صرف ایک تصوراتی خاکہ ہے جو مستقبل میں کبھی حقیقت کا روپ دھار سکتا ہے۔
اس ویڈیو کو یوٹیوب پر جرمنی میں مقیم ہاشم الغائلی نامی اینیمیٹر نے اپلوڈ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’جوہری توانائی سے چلنے والا آسمانی ہوٹل‘ ہے جس میں پانچ ہزار سے زائد مہمانوں کے لیے جگہ موجود ہے اور یہ زمین پر اترے بغیر کئی سال آسمان پر اڑتے رہنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ویڈیو میں یہ بتایا گیا ہے کہ اس ’آسمانی ہوٹل‘ میں کمرشل ایئرلائنز والی خصوصیات ہونے کے علاوہ وہ تمام آسائشیں بھی ہوں گی جو زمین پر موجود بڑے بڑے ہوٹلز میں ہوتی ہیں۔
اس تصوراتی خاکے میں دیکھا جاسکتا ہے کہ اس جہاز کی پشت کے اوپر ایک ہال بنا ہوا ہے جس کے ذریعے یہاں بیٹھے لوگ اپنے چاروں طرف بادل بھی دیکھ سکتے ہیں۔
ویڈیو میں بتایا گیا ہے کہ جہاز کا انجن جوہری توانائی سے چلے گا اور اس جہاز میں ایک چھوٹا ’نیوکلیئر ری ایکٹر‘ بھی لگا ہوگا جو کہ اس آسمانی ہوٹل کی توانائی سے منسلک تمام ضروریات پوری کرے گا۔
تصواراتی خاکے کے بارے میں ہاشم کہتے ہیں کہ آسمانی ہوٹل میں کسی بھی قسم کی ٹربیولنس نہیں ہوگی کیونکہ اس کا ’آرٹیفیشل انٹیلیجنس سسٹم‘ کسی بھی خطرے کو پہلے سے بھانپ کر اس میں سوار لوگوں کی حفاظت کے انتظامات کرلے گا۔
سوشل میڈیا پر جہاں کچھ صارفین کے لیے ’آسمانی ہوٹل‘ کا تصواراتی خاکہ حیران کن ہے وہیں کچھ صارفین اس کا مذاق بھی اڑا رہے ہیں اور اسے بڑا خطرہ بھی قرار دے رہے ہیں۔
انہوں نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’ایک شش و پنج میں مبتلا مسافر نے کہا کہ ایک ایسی چیز جو خرابی کے باعث آسمان سے گرسکتی ہے اس میں نیوکلیئر ری ایکٹر لگانا ایک بہت اچھا آئیڈیا ہے۔‘

مولی نامی صارف نے لکھا ’ہم دہشتگردوں کو جہازوں کا ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے دیکھ چکے ہیں۔‘

وہ مزید لکھتی ہیں کہ ’ہمیں پتہ ہے کہ دہشتگرد کسی نیوکلیئر ری ایکٹر پر حملہ کر کے شدید نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ ایک ہوٹل کے سائز کا جوہری توانائی سے چلنے والا جہاز، کیا غلط ہو سکتا ہے؟‘

شیئر: