Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کی حکومت ختم ہونے والی ہے؟

بورس جانسن کی حکومت پچھلے کچھ مہینوں سے سکینڈلز کی زد میں ہے۔ فوٹو: روئٹرز
برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کی کابینہ کے دو اہم وزرا کے مستعفی ہو جانے کے بعد یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ ان کی وزارت عظمیٰ خطرے میں ہے۔
خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کو سکینڈلز سے متعلق آج بدھ کو پارلیمنٹ میں سوالات کا سامنا کرنا پڑے گا اور سینیئر قانون ساز ان سے پوچھ گچھ کریں گے۔
خیال رہے کہ منگل کو برطانوی حکومت کے چانسلر رشی سونک اور سیکریٹری صحت ساجد جاوید نے حکومت سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا۔
انہوں نے یہ کہتے ہوئے اپنی وزارتوں سے استعفیٰ دے دیا تھا کہ وہ بورس جانسن کی انتظامیہ کو داغدار کرنے والے حالیہ سکینڈلز کے تناظر میں حکومت میں مزید نہیں رہ سکتے۔
برطانوی وزیراعظم کی حکمران کنزرویٹو پارٹی میں قانون سازوں کی بڑی تعداد کا کہنا ہے کہ ’جانسن کے لیے کھیل ختم ہو چکا ہے۔‘ تاہم انہوں نے نیا وزیر خزانہ مقرر کر کے اپنے عہدے پر برقرار رہنے کا عزم ظاہر کیا۔
کنزرویٹو پارٹی کے ایک قانون ساز نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’مجھے شک ہے کہ ہمیں انہیں ڈاؤننگ سٹریٹ سے گھسیٹ کر لے جانا پڑے گا، اگر ہمیں یہ اسی طرح سے کرنا پڑا تو ہم کریں گے۔‘
بورس جانسن کی حکومت پچھلے کچھ مہینوں سے سکینڈلز کی زد میں ہے۔ وزیراعظم کو کورونا وائرس کی وبا کے پیش نظر نافذ کیے گئے لاک ڈاؤن قوانین کو توڑنے پر جرمانہ کیا گیا تھا۔
یہی نہیں بلکہ ان کے ڈاؤننگ سٹریٹ آفس کے عہدیداروں کے رویے کے خلاف ایک قابل مذمت رپورٹ شائع ہوئی تھی جنہوں نے لاک ڈاؤن قوانین کی خلاف ورزی کی تھی۔

برطانوی حکومت کے چانسلر اور سیکریٹری صحت مستعفی ہو گئے ہیں۔ فوٹو: گیٹی امیجز

برطانوی وزیراعظم کی پالیسی میں یوٹرن بھی دیکھے گئے، لابنگ کے حوالے سے بنائے گئے قواعد توڑنے والے ایک قانون ساز کا خوامخواہ دفاع بھی ان پر تنقید کی وجہ بنا۔
اس کے ساتھ ساتھ بورس جانسن پر یہ تنقید بھی کی گئی کہ انہوں نے ایندھن اور اجناس کی بڑھتی قیمتوں کا سامنا کرنے والے برطانوی عوام کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے۔
تازہ ترین سکینڈل میں بورس جانسن نے ایم پی کرس پنچر کو حکومتی عہدے پر تعینات کیا جن کے خلاف جنسی بدسلوکی کی شکایات تھیں۔
اس سکینڈل کے سامنے آنے کے بعد رشی سونک نے وزیر خزانہ اور ساجد جاوید نے سیکریٹری صحت کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔
ساجد جاوید نے اپنے استعفے کے متن میں لکھا کہ ’یہ واضح ہے کہ یہ صورتحال آپ کی قیادت میں نہیں بدلے گی اس لیے آپ نے میرا اعتماد بھی کھو دیا ہے۔‘
انہوں نے لکھا کہ ’انتہائی افسوس کے ساتھ مجھے آپ کو بتانا ہو گا کہ میرا ضمیر مجھے اس حکومت میں خدمات جاری رکھنے کی اجازت نہیں دیتا۔ برطانوی عوام اپنی حکومت سے دیانتداری کی توقع رکھتے ہیں۔‘

ساجد جاوید نے استعفے میں لکھا کہ وزیراعظم نے اعتماد کھو دیا ہے۔ فوٹو: روئٹرز

رشی سونک نے استعفے میں کہا کہ ’عوام توقع کرتے ہیں کہ مناسب طریقے، قابلیت اور سنجیدگی سے حکومت چلائی جائے گی۔‘
ریسرچ اور ڈیٹا کا تجزیہ کرنے والی برطانوی فرم یو گوو کے ایک سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ 69 فیصد برطانوی شہریوں کا خیال ہے کہ بورس جانسن کو وزیراعظم کے عہدے سے سبکدوش ہو جانا چاہیے تاہم وزارتی ٹیم کے دیگر ارکان نے ان کی حمایت کی یقین دہانی کرائی ہے۔
سکاٹش سیکرٹری الیسٹر جیک نے کہا ہے کہ ’میں وزیراعظم کی مکمل حمایت کرتا ہوں۔ مجھے اچھے ساتھیوں کو مستعفی ہوتا دیکھ کر افسوس ہوا۔‘

شیئر: