Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پنجاب کے زمینی ریکارڈ میں غلطیاں، ’منتقلی کے وقت معلوم ہوا زمین کسی اور کے نام ہے‘

پنجاب لینڈ ریکارڈ اتھارٹی کے مطابق تمام ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ ہو گیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
اگر آپ دو مربع زمین کے مالک ہوں اور لینڈ ریکارڈ اتھارٹی کے پاس جا کر اپنی زمین کا فرد یعنی کاغذات نکلوائیں اور اس وقت پتا چلے کہ آپ دو مربع نہیں بلکہ دو مرلے کے مالک ہیں تو آپ پر کیا گزرے گی؟ 
یقیناً جھٹکا لگے گا، غصہ آئے گا اور آپ پریشان ہو جائیں گے۔ آپ سوچنے لگیں گے کہ کہیں اپنے علاقے کے پٹواری کے ساتھ کبھی کوئی جھگڑا تو نہیں ہوا تھا؟ آپ کے کسی مخالف نے پٹواری سے ساز باز کر کے آپ کو زمین سے محروم تو نہیں کر دیا؟ آپ اپنے پٹواری پر شک کریں گے کہ یہ سارا کچھ اسی کا کیا دھرا ہے۔ 
صورت حال اس وقت مزید پریشان کن ہو جاتی ہے جب آپ شریف النفس انسان ہوں اور عمر کے اس حصے میں ہوں کہ جہاں بھاگ دوڑ کرنا ممکن نہ ہو۔ کورٹ کچہریوں کے چکروں اور وکیلوں کے جھمیلے سہنے کے قابل بھی نہ ہوں۔
صوبہ پنجاب کے ضلع چکوال کے ایک گاؤں سے تعلق رکھنے والے حاجی قربان حسین کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ ہوا ہے۔ وہ دو بھائی ہیں اور عمر کی لگ بھگ سات دہائیاں گزار چکے ہیں۔ وہ 500 کنال زمین کے مالک ہیں جو ان کے والد کی طرف سے انھیں وراثت میں ملی تھی اور ان کے زیر استعمال بھی ہے۔ 
اردو نیوز کے ساتھ گفتگو میں انھوں نے بتایا کہ جب سوچا کہ زمین اپنے بچوں کے نام پر منتقل کر دی جائے تاکہ انہیں کل کوئی پریشانی نہ ہو تو معلوم ہوا کہ زمین تو ہمارے نام پر ہی نہیں ہے۔
جب خسرہ اور کھیوٹ کی تفصیلات معلوم کیں تو پتا چلا کہ جو زمین ہمارے پاس ہے وہ ایسے افراد کے نام ہے جو اس گاؤں سے تعلق نہیں رکھتے۔ 
انھوں نے بتایا کہ ’مزید تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ جو زمین ہماری ملکیت ہے اور ہمارے زیر استعمال ہے اور کاغذوں میں کسی اور کے نام ہے وہ در حقیقت ہم بھائیوں کے غلط ناموں پر رجسٹر کی گئی اور ایسا کاغذات میں متعدد جگہوں پر کیا گیا ہے۔‘

زمین کا فرد نکلوانے پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ کسی اور کے نام ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

حاجی قربان حسین کا کہنا تھا ’ایک صفحے پر اگر قربان حسین ہے تو اگلے صفحے پر فرمان حسین لکھا گیا ہے۔ ایک جگہ پر میرا بھائی اللہ نواز ہے تو دوسرے صفحے پر اسے میرا بیٹا لکھا گیا ہے۔ ایک جگہ پر میری قوم درست لکھی گئی تو اس سے اگلی جگہ پر قومیت ہی تبدیل کر دی گئی ہے۔‘ 
انھوں نے کہا کہ ’جب ہم نے ریکارڈ کو درست کرانے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ یہ ایک تھکا دینے والا طویل عمل ہے۔‘
قربان حسین کے مطابق ’ہمیں ایک کاؤنٹر سے دوسرے کاؤنٹر اور ایک افسر سے دوسرے افسر کے پاس بھیجا جاتا ہے لیکن کام کوئی نہیں کرتا اور نہ ہی کوئی سیدھا راستہ بتاتا ہے۔ ہمیں کہا گیا کہ گاؤں کے نمبردار اور دو دو گواہوں کو لے کر آئیں جو سٹام پیپر پر لکھ کر دیں کہ آپ کی اصلی قومیت کیا ہے اور اس کے ساتھ زمین کے بارے میں بھی گواہی دیں۔‘ 
قربان حسین  کہتے ہیں ’ایک چیز سمجھ سے باہر ہے کہ جب غلطی محکمے کی ہے تو گواہ اور سٹام میں کیوں ڈھونڈتا اور بنواتا پھروں؟ سرکاری دفاتر میں بیٹھے افراد کام نہیں کرتے لیکن عوام کو ذلیل کرتے ہیں۔ جب ایک جگہ پر نام اور معلومات درست ہیں تو دوسری جگہ پر جا کر کسی اور نے تو غلط اندراج نہیں کیا یہ تو محکمے کی ہی غلطی ہے اور اسے ہی درست کرنا چاہیے۔‘
اردو نیوز نے اس حوالے سے پنجاب لینڈ ریکارڈ اتھارٹی سے رابطہ کیا تو ترجمان نادیہ احمد نے کہا کہ پنجاب میں کچھ عرصہ قبل زمینوں کا تمام ریکارڈ جو کاغذات پر موجود تھا اسے کمپیوٹر پر منتقل کیا گیا ہے۔
 یہ ریکارڈ نہ صرف کمپیوٹرائزڈ کیا گیا ہے بلکہ یونیورسل سسٹم سے لنک کر کے پنجاب بھر میں 200 سے زائد مراکز میں کسی بھی ضلع یا تحصیل کی زمین کا ریکارڈ یا فرد فراہم کرنے کی سہولت دے دی گئی ہے۔ 

اپنی زمین کو اپنے شناختی کارڈ کے ساتھ منسلک کروانا چاہیے۔ فوٹو: اے ایف پی

ان کے مطابق ’ہمیں یہ شکایات موصول ہوتی رہتی ہیں کہ لینڈ ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کرتے وقت اس میں غلطیاں کی گئی ہیں تو ہم نے اس کا حل بھی نکالا ہے۔ اگر کسی شخص کا نام غلط لکھا ہو اور اس میں معمولی غلطی ہو تو اسے درست کرنے کا اختیار سینٹر میں موجود نمائندے کو ہی دے دیا گیا ہے۔ اگر نام یا قومیت کے معاملے میں زیادہ غلطیاں یا کنفیوژن ہو تو ایسی صورت میں بھی قانونی طریقہ کار اپناتے ہوئے سٹام اور گواہان کے ذریعے ریکارڈ کی درستگی کی جا رہی ہے۔‘ 
نادیہ احمد نے بتایا کہ اگر کسی فرد کو یہ شکایت ہو کہ اس کی زمین کسی اور شخص کے نام منتقل کر دی گئی ہے تو اس کی درخواست وصول کر کے تصدیق کے لیے لینڈ ریونیو کے فیلڈ دفاتر کو بھیجی جاتی ہے۔ اگر اس زمین پر کسی قسم کی کوئی مقدمہ بازی نہ ہو تو پانچ روز میں فرد بدر جاری کر دیا جاتا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ زمین حقیقی مالک کے نام منتقل کر دی گئی ہے۔ 
ان کا کہنا ہے کہ قانون بنانے والوں نے کسی بھی غلطی کی درستگی کا ایک طریقہ کار طے کیا ہے۔ لینڈ ریکارڈ سینٹرز پر موجود عملہ اس کا پابند ہے۔ اگر وہ کوئی غیرقانونی تقاضا کریں تو عملے کی شکایت کی جا سکتی ہے تاہم کچھ کام ایک ضابطے کے تحت ہی انجام دیے جا سکتے ہیں۔ 
انھوں نے عوام کی آگاہی کے لیے کہا کہ اپنی زمین کو اپنے شناختی کارڈ کے ساتھ منسلک کرنے کے لیے اپنے علاقے کے لینڈ ریکارڈ سینٹر پر جائیں تاکہ اگر کہیں پر کوئی غلطی ہے تو اسے بروقت درست کیا جا سکے اور ساتھ ہی زمین اور شناختی کارڈ کو باہم لنک کرنے سے صوبہ بھر میں کہیں سے بھی فرد کا حصول ممکن ہو جائے گا۔

شیئر: