Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وزیراعلٰی پنجاب کا انتخاب: مسلم لیگ ن کا پلان بی کیا ہے؟

پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کے وزیراعلی کا دوبارہ انتخاب 22 جولائی کو ہونے جا رہا ہے۔ پنجاب کے ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کو ملنے والی کامیابی کے بعد نئے وزیراعلی کا انتخاب کوئی بہت سادہ بات معلوم نہیں ہو رہی۔
اور اس بات کی سب سے بڑی وجہ مسلم لیگ ن کی جانب سے بھر پورمقابلہ کرنے کا اعلان اور دبے لفظوں میں اپنی کامیابی کے دعوے ہیں۔
پنجاب اسمبلی کی نمبر گیم کے مطابق ن لیگ اور اتحادیوں کے پاس 180 جبکہ تحریک انصاف اور اتحادی جماعت ق لیگ کے پاس 188 ووٹ ہیں۔
ریاضی کے اعتبار سے تو کہانی سیدھی ہے لیکن سیاسی اعتبار سے ابھی بھی ٹیڑھی ہی ہے۔ منگل کو لاہور میں حکومتی اتحادیوں کے سربراہی اکٹھ کے بعد صورت حال تبدیل ہوتی نظر آرہی ہے۔
لاہور میں وزیراعظم شہباز شریف کی رہائش گاہ ماڈل ٹاؤن میں کئی گھنٹے جاری رہنے والے اجلاس کے بعد جب اعلان کیا گیا کہ پنجاب کا میدان خالی نہیں چھوڑا جائےگا تو سب کے کان کھڑے ہو گئے۔
چوہدری پرویز الہی جو کہ تحریک انصاف کے وزارت اعلی کے امیدوار ہیں انہوں نے بھی صورت حال بھانپتے ہوئے ایک پریس کانفرنس کی اور ن لیگ سے شکوے کرتے نظر آئے۔
انہوں نے یہ تک کہ دیا کہ جب حمزہ شہباز جیل میں تھے تو وہ کیسے ان کے پروڈکشن آرڈر جاری کرتے تھے۔ ’اب انہیں چاہیے کہ وہ مجھے بھی عزت دیں۔‘

پی ٹی آئی کے وزارت اعلی کے امیدوار چوہدری پرویز الہی نے بھی کمر کس لی ہے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

رات کو آصف علی زرداری نے چوہدری شجاعت کے ساتھ ملاقات کی۔ آصف زرداری اجلاس کے بعد سیدھے چوہدری شجاعت کی رہائش گاہ پہنچے اور تنہائی میں ملاقات کرکے جب باہر نکلے تو کیمروں کی طرف دیکھ کر وکٹری کا نشان بنایا۔
ان سارے واقعات کے بعد چہ مگوئیاں شروع ہو گئیں کہ آخر ن لیگ اور اس کے اتحادی 22 تاریخ کو کیا کرنے جا رہے ہیں۔
مسلم لیگ ن کے ایک اہم راہنما نے اردو نیوز کو اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’تحریک انصاف کے کئی اراکین چوہدری پرویز الہی کو وزیر اعلی نہیں دیکھنا چاہتے اور ان میں سے کچھ پیپلزپارٹی کے ساتھ رابطے میں ہیں تو کچھ ن لیگ کے ساتھ۔ اس لیے ہم کانفیڈنٹ ہیں کہ چوہدری پرویز الہی اپنے نمبر پورے نہیں کر سکیں گے۔‘
ن لیگ کے راہنماوں کا دعوی اپنی جگہ لیکن دوسری طرف چوہدری پرویز الہی نے بھی کمر کس لی ہے۔
لاہور میں ایک نجی ہوٹل کو بک کر لیا گیا ہے اور بدھ کو تمام اراکین اسمبلی کو اس ہوٹل میں پہنچنے اور اگلے دو دن اسی ہوٹل میں رہنے کی ہدایات دی گئی ہیں۔
بالکل ایسے ہی جیسے حمزہ شہباز نے اپنے الیکشن سے پہلے کئی روز تک اراکین اسمبلی کو ایک ہوٹل میں رکھا تھا۔
مسلم لیگ ن کے راہنما کے مطابق ’سیاست میں سب کے پاس پلان بی ہوتا ہے تو ہمارے پاس بھی تھا لیکن اس کو شدت کے ساتھ لاگو کرنے کی وجہ جیتنے کے باوجود عمران خان کا رویہ ہے۔‘

صوبائی دارالحکومت لاہور کی فضاوں میں ایک مرتبہ پھر ن لیگ کے گیم میں واپس آنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

ان کے مطابق ’آج اتحادی جماعتوں کے اجلاس میں سب نے ایک ہی بات کی کہ میدان کسی بھی صورت کھلا نہیں چھوڑا جا سکتا اور بھر پور جوابی وار کرنا چاہیے۔‘
مسلم لیگ ن کے پلان بی کی ہلکی سی جھلک وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے پیرکے روز اپنی پریس کانفرنس میں بھی دی تھی جس میں انہوں  نے کہا تھا  کہ ’الیکن لیکشن کےروز تحریک انصاف کے چا ر پانچ اراکین اجلاس میں شرکت کے لیے آئے ہی نہ تو پرویز الہی وزارت اعلی کی کرسی کو دیکھتے ہی رہ جائیں گے۔‘
دوسری طرف تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی کے نو منتخب رکن اسمبلی بیٹے زین قریشی کے وزیراعلی پنجاب بننے کے حق میں بھی ایک کیمپین سوشل میڈیا اور اشتہاروں کے ذریعے چلائی جا رہی ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق اگر تحریک انصاف اکثریت میں ہونے کے باوجود اگر اپنا وزیر اعلی نہیں بنا سکے گی تو اس کی وجہ صرف اور صرف پارٹی کے اندر کے اختلافات ہو سکتے ہیں۔ 
اس وقت صوبائی دارالحکومت لاہور کی فضاوں میں ایک مرتبہ پھر ن لیگ کے گیم میں واپس آنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ پنجاب کی پندرہ نشستوں پر ہارنے کےبعد بہرحال ن لیگ کی قیادت اور ان کے کارکنان کا موران ڈاون ہو چکا تھا۔ 

شیئر: