Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مینڈیٹ پارلیمانی پارٹی نہیں، مدر پارٹی کا ہوتا ہے: قمر زمان کائرہ

23 جولائی کو پنجاب اسمبلی میں وزیراعلٰی کے انتخاب کے لیے ووٹنگ ہوئی تھی (فوٹو: اے پی پی)
وزیراعظم کے مشیر اور پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ مینڈیٹ پارلیمانی پارٹی کا نہیں ہوتا کیونکہ یہ الیکشن کے بعد وجود میں آتی ہے بلکہ مینڈیٹ مدر پارٹی کا ہوتا ہے۔
اتوار کو لالہ موسٰی میں صحافیوں سے گفتگو میں قمر زمان کائزہ نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ’جب الیکشن کے بعد اسمبلی بن جاتی ہے، ممبرز بن جاتے ہیں اس کے بعد پارلیمانی پارٹیاں جنم لیتی ہیں۔‘
انہوں نے پنجاب کی وزارت اعلٰی کے انتخاب کے معاملے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آج ایک اہم سیاسی معاملہ عدالت میں ہے۔
قمر زمان کائرہ نے سیاسی جماعتوں پر زور دیتے ہوئے کہا کہ انہیں اپنے معاملات کو خود حل کرنا چاہیے اور عدالت میں لے کر نہیں جانا چاہیے۔
قمر زمان کائزہ نے اپوزیشن کا یہ مطالبہ ایک بار پھر دوہرایا کہ وزارت اعلٰی کے لیے فل کورٹ بنایا جائے تاکہ یہ معاملہ کسی طرف لگے اور یہ تاثر بھی دور ہو کہ ایک طرح کے معاملات پر مختلف فیصلے آتے رہے ہیں۔
انہوں نے پی ٹی آئی پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر مسلم لیگ ق آپ کے ساتھ ہو تو ٹھیک، ہمارے ساتھ آ جائے تو ہنگامہ کھڑا کر دیا جاتا ہے کہ ڈاکہ پڑ گیا۔‘
انہوں نے ووٹنگ سے قبل کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’طوفان بدتمیزی برپا کیا گیا کہ کسی کو 40 دے کر خریدا گیا اور کسی کو ترکی بھیج دیا گیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ق کے ووٹ ایک تکنیکی اور عدالتی فیصلے کی بنیاد پر رد ہونے کے بعد حمزہ شہباز وزیراعلٰی بنے۔
ان کے بقول الیکشن کے بعد بھی عمران خان پیسہ چلنے کے الزامات لگا رہے ہیں۔
انہوں نے ہٹلر کے وزیر اطلاعات گوئبلز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان کی طرح عمران خان بھی ایک پوائنٹ کو پکڑ لیتے ہیں۔
’کرکٹ میں بھی شاید اس پر کامیابی مل سکتی ہے تاہم کبھی کبھی پھینٹی بھی لگ جایا کرتی ہے۔‘
قمر زمان کائزہ نے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کے خلاف سماعت کے عدالتی بینچ پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک ہی طرح کا عدالتی بینچ اہم کیسز کے فیصلے کر رہا ہے۔
’کچھ جج صاحبان کے کمنٹس پر ہمارے تحفظات ہیں، ان سے ان کی غیرجانبداری متاثر ہوتی ہے۔‘

شیئر: