Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں والدہ کے ڈیٹا پر شناختی کارڈ، جب عدالت نے ’تاریخی‘ فیصلہ سنایا

پاکستان میں آج بھی لاکھوں لوگوں کے پاس شناختی کارڈز موجود نہیں (فوٹو: روئٹرز)
مسلسل تین سال تک کوششوں کے باوجود ڈیجیٹل کارڈ حاصل نہ کر پانے پر کراچی کی رہائشی روبینہ نے اپنا معاملہ عدالت لے جانے کا فیصلہ کیا اور کامیابی بھی حاصل کی۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پاکستان میں ڈیجیٹل شناختی کارڈ کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ والد کا شناختی کارڈ پیش کیا جائے جو کہ ان بہت سے لوگوں کے لیے ناممکن ہے جنہوں نے والدہ کے زیرسایہ پرورش پائی ہو اور روبینہ بھی انہی میں سے ایک ہیں۔
شناختی کارڈ کا ووٹ کے علاوہ حکومت کی دیگر سروسز حاصل کرنے میں بھی مرکزی کردار ہے جن میں صحت کی سہولتیں، بینک اکاؤنٹ اور ملازمت کے لیے درخواست دینا وغیرہ شامل ہیں۔
21 سالہ روبینہ کہتی ہیں ’میری والدہ نے میری پرورش کی کیونکہ والد نے میری پیدائش کے فوراً ہم کو چھوڑ دیا تھا، اب میں ان کے شناختی کاغذات کیسے پیش کر سکتی ہوں۔‘
روبینہ کی پریشانی اس قدر بڑھی کہ انہوں نے ہائیکورٹ میں پٹیشن دائر کر دی، جس کے بعد نومبر میں عدالت نے شناختی کارڈ بنانے والے ادارے کو ہدایت کی کہ روبینہ کا شناخت کارڈ والدہ کے ریکارڈ پر بنایا جائے۔
روبینہ کے لیے اس حکم کا مطلب یہ تھا کہ اب وہ اپنی والدہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی جگہ پر ملازمت کے لیے درخواست دے سکیں جو کہ محکمہ تعلیم میں ملازمت کر رہی ہیں۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سیکریٹری جنرل حارث خلیق روبینہ کے کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس نے ان افراد کو آئی ڈی سکیم کے اس مرحلے سے نکال دیا ہے جنہوں نے ماؤں کے زیرسایہ پرورش پائی۔
 نادرا (نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی) کے ایجنسی انچارج کا کہنا ہے، کہ ادارہ ان لوگوں تک پہنچنے کی کوشش کر رہا ہے جن کو اب تک اس مرحلے سے نکالا جا چکا ہے۔
وزیراعظم کے سٹریٹیجک ریفارمز یونٹ کے سربراہ سلمان صوفی نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ ’حکومت کی واضح پالیسی ہے جو لوگ ڈیٹابیس پر رجسٹرڈ ہیں، ان کو خارج نہیں کیا جائے گا۔‘
2000 میں قائم کیے جانے والے ادارے نادرا نے بائیومیٹرک ڈیٹابیس قائم کیا ہے جس کا کہنا ہے کہ اب تک اس کی جانب سے 212 ملین کی آبادی رکھنے والے ملک کے 96 فیصد بالغوں کو 120 ملین شناختی کارڈ جاری کیے جا چکے ہیں۔
ہر کارڈ پر 13 ہندسوں پر مشمتل منفرد آئی ڈی موجود ہے، اس تصویر کے علاوہ حامل کے دستخط بھی ہوتے ہیں۔
آج بھی لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کے پاس شناخت کارڈ نہیں ہیں جن میں خواتین، خواجہ سرا، تارکین وطن اور خانہ بدوش کمیونیٹیز کے افراد شامل ہیں۔
ورلڈ بینک کے مطابق عالمی سطح پر ایسے ایک ارب کے قریب افراد موجود ہیں جن کے پاس ان کی شناخت ظاہر کے ذرائع موجود نہیں۔

شیئر: