Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

روس کی علیحدگی کے بعد بین الاقوامی خلائی سٹیشن کا مستقبل کیا ہوگا؟

ناسا کا ہدف بین الاقوامی خلائی سٹیشن کو کم از کم 2030 تک مدار میں رکھنا اور پھر چھوٹے تجارتی سٹیشنوں میں منتقل کرنا ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
روس کی جانب سے رواں ہفتے کیے گئے اس اعلان کے بعد کہ وہ 2024 کے بعد بین الاقوامی خلائی سٹیشن(آئی ایس ایس) سے الگ ہو جائے، کئی طرح کے خدشات نے جنم لیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق رواں برس فروری میں یوکرین پر حملے کے بعد سے روس کے امریکہ کے ساتھ تعلقات میں زیادہ تناؤ پیدا ہوا ہے اور اس کے نتیجے میں روس پر کئی طرح کی پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔
روس پر لگائی گئی پابندیوں کی زد میں اس کی فضائی انڈسٹری بھی آئی ہے۔
 مارچ میں روسی خلائی ایجنسی کے سربراہ دمتری روگوزین نے خبردار کیا تھا کہ روس کے تعاون کے بغیر بین الاقوامی خلائی سٹیشن امریکی یا یورپین سرزمین پر جا گرے گا۔
روگوزین کے اس بیان نے غیر یقینی میں اضافہ کر دیا تھا جبکہ اس سے صرف دو ہفتے قبل ہی روس اور امریکہ نے ایک دوسرے کے خلابازوں کو سٹیشن تک لے جانے کا عزم کیا تھا۔
جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں سپیس پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر سکاٹ پیس نے کہا کہ روگوزین کے بعد روسی خلائی ایجنسی کے سربراہ یوری بوریسوف کا نیا اعلان ’تھوڑا سا بہتر‘ تھا۔
سکاٹ پیس نے کہا ’حقیقت یہ ہے کہ ان(روسیوں) کا یہ کہنا کہ ’ہم 2024 تک خلائی سٹیشن سے جڑے رہیں گے‘، اچھی بات ہے۔‘
اس کا مطلب ہے کہ ماسکو جلد انخلا کا ارادہ نہیں کر رہا ہے، حالانکہ ’2024 کے بعد‘ کا کیا مطلب ہے یہ ابھی تک واضح نہیں ہے۔
واضح رہے کہ ناسا کا ہدف بین الاقوامی خلائی سٹیشن کو کم از کم 2030 تک مدار میں رکھنا اور پھر چھوٹے تجارتی سٹیشنوں میں منتقل کرنا ہے۔

روس کے نکل جانے سے کیا فرق پڑے گا؟

بین الاقوامی خلائی سٹیشن کو 1998 میں امریکہ اور روس کے تعاون کی امید طور پر شروع کیا گیا تھا حالانکہ اس سے قبل سرد جنگ کے دوران ان دونوں ممالک میں خلائی مشنوں سے متعلق کافی سخت مقابلہ رہا تھا۔
خلائی شٹل کے ناکارہ ہونے کے بعد سےخلائی سٹیشن نے سطح سمندر سے تقریباً 400 کلومیٹر بلند اپنے مدار کو برقرار رکھنے کے لیے وقتاً فوقتاً روسی پروپلشن سسٹمز پر انحصار کیا ہے جبکہ امریکہ کے حصے میں بجلی اور لائف سپورٹ سسٹم کی ذمہ داری ہے۔
دوسری جانب امریکہ نے حال ہی میں نارتھروپ گرومین کے سائگنس خلائی جہاز کے ذریعے ایک خود مختار پروپلشن سسٹم حاصل کرنے میں بھی پیش رفت کی ہے۔
تاہم ماہر فلکیات اور خلائی نگران جوناتھن میک ڈویل کا کہنا ہے کہ ’سائگنس دھکیل تو سکتا ہے، لیکن یہ سٹیشن کو دھکیلتے وقت صحیح سمت میں نہیں رکھ سکتا۔‘
سکاٹ پیس کا کہنا ہے کہ خلائی سٹیشن از خود چھوٹی تبدیلیاں تو کر سکتا ہے لیکن اگر روسی باہر نکل جاتے ہیں تو امریکہ کو زیادہ مستقل حل کی ضرورت ہو گی۔
روس کے پاس دو پروپلشن سسٹم ہیں اور ان دونوں کے کنٹرول سسٹم کا انتظام روس ہی کے پاس ہے۔
سکاٹ پیس کا مزید کہنا ہے کہ ’یہ اچھا ہو گا کہ خلائی سٹیشن کی اپنے حصے کی جگہ اگر روس جاتے وقت اپنے ساتھ لے جانے کے بجائے چھوڑ دے۔

ماہر فلکیات جوناتھن میک ڈویل کا کہنا ہے کہ ’سائگنس دھکیل تو سکتا ہے، لیکن یہ سٹیشن کو دھکیلتے وقت صحیح سمت میں نہیں رکھ سکتا۔‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

واضح رہے کہ خلائی سٹیشن کے دو باتھ رومز میں سے ایک روسی انتظام میں ہے اور دوسرے کے بارے میں معلومات نہیں ہیں۔
سکاٹ پیس نے کہا کہ ’اگر یہ بعد میں بھی موجود رہتا ہے اور ہم اسے استعمال کرنا چاہتے ہیں، تو کیا کوئی کرایہ کا انتظام ہوگا؟ اس بارے میں مجھے نہیں معلوم۔‘

ماہرین کیا کہتے ہیں؟

ناسا نے اس حوالے سے ذرا دوٹوک موقف اپنایا ہے۔
ناسا کے بین الاقوامی خلائی سٹیشن کے پروگرام مینیجر جوئل مونٹالبانو نے روس کی جانب سے اعلان کے بعد کہا کہ ’ہم تیزی سے اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہم 2030 تک مکمل طور پر کام جاری رکھیں گے۔‘
’اگر کسی کا خیال ہے کہ منصوبے میں کوئی تبدیلی آئی ہے تو وہ غلط ہے۔‘
ماہر فلکیات اور خلائی نگران جوناتھن میک ڈویل کا کہنا ہے کہ ’امریکہ کے لیے سٹیشن کو بچانے کے لیے انتہائی حد تک جانا درست اقدام نہیں ہے۔‘

ناسا کے بین الاقوامی خلائی سٹیشن کے پروگرام مینیجر جوئل مونٹالبانو نے کہا کہ ’ہم 2030 تک مکمل طور پر کام جاری رکھیں گے۔‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

دوسری جانب ناسا کے پاس گیٹ وے نامی قمری خلائی سٹیشن کی تعمیر، چاند پر موجودگی اور مریخ پر جانے کے بڑے اہداف ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ’ہو سکتا ہے کہ وہ(امریکی) روس کی علیحدگی کو ایک بہانے کے طور پر لیں اور کہہ دیں کہ ’ٹھیک ہے، الوداع۔‘ اور اب ہم گیٹ وے پر کام شروع کرتے ہیں۔‘

شیئر: