Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پی ٹی آئی کے خلاف ڈیکلیریشن سپریم کورٹ بھیجنے کا کیا مطلب ہے؟

پنجاب میں پی ٹی آئی حکومت چند ووٹوں کی اکثریت سے قائم ہے۔ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)
وفاقی کابینہ نے ممنوعہ فنڈنگ کے معاملے پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے خلاف پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002 کے تحت کارروائی کرنے اور ڈیکلیریشن سپریم کورٹ بھجوانےکا فیصلہ کیا ہے۔
جمعرات کو کابینہ اجلاس کے بعد وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے بتایا کہ ’وفاقی کابینہ نے ممنوع فنڈنگ کے حوالے سے الیکشن کمیشن پاکستان کے فیصلے کا تفصلی جائزہ لینے کے بعد پولیٹیکل پارٹییز آرڈر 2002 کے آرٹیکل 2، 6 ،15 اور17 کے تحت کارروائی کا فیصلہ کیا ہے۔‘​
حکومت کے مطابق ’تحریک انصاف غیرملکی امداد لینے والی جماعت قرار پائی ہے۔‘

قانون کیا کہتا ہے؟

حکومت نے سیاسی جماعتوں کے حوالے سے موجود قانون یعنی پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002 کی چار دفعات (2، 6 ،15 اور17) کا حوالہ دیا ہے جن کے تحت پی ٹی آئی کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
اس قانون کے آرٹیکل 2 کا تعلق بیرون ملک سے مدد پانے والی سیاسی جماعت کی تعریف سے ہے۔
اس میں بتایا گیا ہے کہ ’فارن ایڈڈ سیاسی جماعت سے مراد وہ جماعت ہے جسے بیرون ملک کسی حکومت یا جماعت کی مدد سے بنایا گیا ہو یا پھر اسے بیرون ملک سے مالی مدد ملتی ہو۔‘
قانون کی دفعہ 6 کے مطابق کسی بھی غیرملکی حکومت، ملٹی نیشنل یا نجی کمپنی، فرم یا پیشہ ورانہ ایسوسی ایشن سے فنڈنگ ممنوع ہو گی اور ممنوعہ فنڈنگ کو بحق سرکار ضبط کیا جائے گا۔

حکومت کے مطابق ’تحریک انصاف غیرملکی امداد لینے والی جماعت قرار پائی ہے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

سیاسی جماعت کی تحلیل کا طریق کار

آرٹیکل 15 کا تعلق کسی غیرقانونی سیاسی جماعت کو تحلیل کرنے سے ہے۔
اس کے مطابق اگر وفاقی حکومت اس بات سے مطمئن ہے کہ کوئی سیاسی جماعت غیرملکی امداد یافتہ ہے یا پاکستان کی خودمختاری یا سالمیت کے خلاف کام کر رہی ہے یا دہشت گردی میں ملوث ہے تو حکومت سرکاری گزٹ میں ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے اس کا اعلان یعنی ڈیکلریشن جاری کرے گی۔
اسی آرٹیکل کے مطابق ڈیکلیریشن یا اعلان کے 15 دن کے اندر اندر وفاقی حکومت اس معاملے کو سپریم کورٹ میں بھیجے گی جو سیاسی جماعت کے مستقبل کے حوالے سے حتمی فیصلہ کرے گی۔
اگر سپریم کورٹ حکومت کا ڈیکلیریشن برقرار رکھتی ہے تو پھر متعلقہ سیاسی جماعت فوری طور پر تحلیل ہو جائے گی۔

’ارکان اسمبلی فیصلے سے قبل استعفٰی دیں یا پھر چار سال نااہلی بھگتیں

سیاسی اور قانونی امور پر نظر رکھنی والی تنظییم پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’موجودہ قانون کے مطابق جب ڈیکلیریشن سپریم کورٹ میں چلا جائے تو متعلقہ جماعت کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کے پاس فیصلے سے قبل یہ مہلت ہوتی ہے کہ وہ اپنی جماعت سے استعفٰی دے دیں اور دوبارہ الیکشن لڑ کر اسمبلی میں آ جائیں، ورنہ سپریم کورٹ سے پارٹی تحلیل ہونے کی صورت میں اس جماعت کے تمام ارکان چار سال کے لیے نااہل ہو جائیں گے اور انتخابات میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس شق کی وجہ سے پی ٹی آئی کے ارکان پر پریشر پڑھ جائے گا کہ وہ مستعفی ہو جائیں۔
احمد بلال محبوب کے مطابق ’سپریم کورٹ کے فیصلے کی کوئی ڈیڈ لائن نہیں ہے مگر اس اہم معاملے پر توقع یہی ہے کہ عدالت عظمی اس کو ترجیحی بنیادوں پر دیکھے گی۔‘

ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) پر پابندی عائد کرنے کا ڈیکلیریشن سپریم کورٹ بھیجا گیا تھا۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

یاد رہے کہ پنجاب میں پی ٹی آئی حکومت چند ووٹوں کی اکثریت سے قائم ہے اور اگر اس کے نو یا زائد ارکان مستعفی ہو جائیں تو موجودہ اپوزیشن یعنی مسلم لیگ ن صوبے میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں آجائے گی۔

ماضی میں کب کب سیاسی جماعتوں پر پابندی لگی؟

احمد بلال محبوب کے مطابق ماضی میں بھی دو سیاسی جماعتوں پر پابندی لگانے کی کوشش کی گئی۔
70 کی دہائی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) پر پابندی عائد کرنے کا ڈیکلیریشن سپریم کورٹ بھیجا گیا جسے عدالت عظمی نے برقرار رکھا، جس کے بعد نیپ پر پابندی عائد کر دی گئی اور اسے نئے نام عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے نام سے رجسٹرڈ کروایا گیا۔
اسی طرح 60 کی دہائی میں اس وقت کے فوجی حکمران جنرل ایوب کی جانب سے جماعت اسلامی پر پابندی عائد کی گئی تاہم سپریم کورٹ نے اس فیصلے کی توثیق نہیں کی اور پابندی ختم ہو گئی۔

شیئر: