Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گجرات کے چوہدریوں کی طرح شریف خاندان بھی ٹوٹ جائے گا؟ 

سلمان غنی کے مطابق نواز شریف کا مزاحمتی بیانیہ شاید شہباز شریف کے بیانیے سے بہتر تھا۔ (فوٹو: ٹوئٹر)
پاکستان کے صوبہ پنجاب میں دو خاندانوں کی سیاست ہمیشہ سے ملک بھر میں توجہ کا مرکز رہی ہے۔ یہاں کی سیاست پر نگاہ رکھنے والے کسی بھی فرد کو ان خاندانوں کے نام بتانے کی ضرورت نہیں۔ 
یہاں بات ہو رہی ہے گجرات کے چوہدریوں اور لاہور کے شریفوں کی۔ 
گجرات کے چوہدری جو دراصل آپس میں چچا زاد بھائی ہیں 1980 کی دہائی سے ساتھ مل کر سیاست کر رہے تھے اور پھر نواز شریف کی دوسری حکومت کا جب تختہ الٹا تو پاکستان مسلم لیگ (ق) کی بنیاد رکھی گئی اور چوہدری پریز الٰہی پنجاب کے پہلی مرتبہ وزیراعلیٰ بن گئے۔ 
چوہدری شجاعت حسین جون 2004 میں پاکستان کے وزیراعظم منتخب ہوئے۔ تاہم انہیں جلد ہی اپنی نشست شوکت عزیز کے لیے چھوڑنی پڑی۔ 
دونوں کزنز تقریباً پانچ دہائیوں پر محیط سیاسی کیریئر میں کبھی ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے نظر نہیں آئے۔ لیکن رواں برس جب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے حمزہ شہباز کے خلاف چوہدری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ پنجاب کا امیدوار نامزد کیا تو چوہدری شجاعت نے ان کی حمایت کرنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وہ سابق وزیراعظم عمران خان کے امیدوار کی حمایت نہیں کریں گے۔ 
چوہدری شجاعت حسین کے اس فیصلے کے بعد انہیں پاکستان مسلم لیگ (ق) کی سے صدارت سے الگ کر دیا گیا اور دونوں کزنز اور ان کے گھرانوں کے درمیان اختلافات بالآخر علیحدگی کا باعث بن گئے۔ 

شیخ رشید کی ن سے ش نکلنے کی پیش گوئی کتنی درست ہے؟  

گجرات کے چوہدریوں کے درمیان دوریوں سے قبل پنجاب کے دوسرے سیاسی خاندان یعنی نواز شریف اور شہباز شریف اور ان کے بچوں کے درمیان بھی اختلافات کی افواہیں گردش کرتی رہی ہیں۔ 
ان افواہوں پر سب سے زیادہ بات کرتے ہوئے سابق وزیراعظم عمران خان کے اتحادی شیخ رشید نظر آتے تھے اور ٹی وی چینلز پر ان کا شریف خاندان اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے بارے میں کہا ہوا ایک جملہ اکثر دیکھنے کو ملتا تھا۔ 
شیخ رشید کہا کرتے تھے کہ ’ن لیگ میں سے ش لیگ نکلے گی‘۔ یعنی نواز شریف سے علیحدگی اختیار کر کے شہباز شریف اپنی الگ جماعت بنا لیں گے۔ 

جب پی ٹی آئی نے پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ پنجاب کا امیدوار نامزد کیا تو چوہدری شجاعت نے ان کی حمایت کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

شیخ رشید کی یہ پیش گوئی تاحال حقیقت کا روپ نہیں دھار سکی ہے اور شہباز شریف اپنے بھائی کی غیر موجودگی میں ان ہی کی حمایت سے پاکستان کے وزیراعظم بن گئے ہیں۔ 
یہاں یہ سوال اہم ہے کہ کیا آگے جا کر شیخ رشید کی ان دونوں بھائیوں سے متعلق پیش گوئی پوری ہو سکتی ہے؟ 
پنجاب کے مرکزی شہر لاہور میں تین دہائیوں سے زائد صحافت کرنے والے تجزیہ کار سلمان غنی کہتے ہیں کہ انہیں دونوں بھائیوں کے درمیان علیحدگی ہوتی نظر نہیں آتی۔ 
انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’جب سے بڑے میاں (میاں محمد شریف) فوت ہوئے ہیں شہباز شریف اپنے بھائی نواز شریف کو اپنے باپ کا درجہ دیتے ہیں۔‘
شریف خاندان کے بارے میں سلمان غنی مزید کہتے ہیں کہ ’اس خاندان کی کچھ روایات ہیں اور رکھ رکھاؤ ہے۔ میاں محمد شریف بھی سیاست میں ترجیح نواز شریف کو ہی دیتے تھے۔‘
سلمان غنی سے ملتی جلتی بات سابق فوجی آمر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے بھی اپنی کتاب ’ان دا لائن آف فائر‘ میں لکھی تھی۔ لیکن ان کے الفاظ تعریفی بلکل نہیں تھے۔ 
وہ شریف خاندان کے گھر جانے کا قصہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’کھانے کے وقت ابا جی یعنی میاں محمد شریف، ان کے دونوں بیٹے اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف اور شہباز شریف بھی موجود تھے۔‘
’کھانے کے دوران ابا جی تسلسل سے اپنی رائے اور تجربات بیان کرتے رہے۔ دونوں بیٹوں میں سے کسی ایک کی بھی ہمت نہیں تھی کہ وہ انہیں روک سکیں یا اپنی رائے پیش کر سکیں۔‘

احمد ولید کے مطابق مریم اور حمزہ کے درمیان تعلقات بعد میں کیسے رہتے ہیں اس کے بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہو گا۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

کتاب میں مزید لکھا ہے کہ ’بڑوں کی عزت کرنا ایک تعریف کے قابل ایشیائی قدر ہے لیکن وہ کوئی عام بیٹے تو نہیں تھے بلکہ ایک وزیراعظم تھا اور دوسرا وزیراعلیٰ۔‘
تجزیہ کار سلمان غنی کا بھی کہنا ہے کہ شہباز شریف بحیثیت بڑے بھائی نواز شریف کا احترام تو کرتے ہی ہیں لیکن نواز شریف سے علیحدگی اختیار کرنے میں بھی ان کا کوئی فائدہ نہیں۔ 
انہوں نے مزید کہا کہ ’سیاست اور رکھ رکھاؤ نواز شریف کا ہے۔ شہباز شریف ایک اچھے ایڈمنسٹریٹر کے طور پر مشہور ہیں اور وہ کامیاب اسی لیے تھے کہ پہلے ان کے اوپر وزیراعظم نواز شریف ہوا کرتے تھے۔‘
یہاں اس بات کا ذکر بھی کیا جا سکتا ہے کہ شہباز شریف بھلے ہی پہلی بار وزیراعظم بنے ہوں لیکن ایسا نہیں کہ اس سے قبل انہیں وزارت اعظمیٰ کی پیشکش نہیں کی گئی تھی۔ 
سلمان غنی کہتے ہیں کہ ’سنہ 1999 میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت گراتے وقت جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے شہباز شریف کو یہ پیش کش کی تھی کہ وہ اگر نواز شریف سے علیحدہ ہوجائیں تو پاکستان کے وزیراعظم بن سکتے ہیں لیکن شہباز شریف نے اس پیشکش کو ماننے سے انکار کر دیا۔‘ 

کیا دونوں بھائیوں میں سیاسی اختلافات موجود ہیں؟ 

پانامہ لیکس کیس میں نواز شریف کی نااہلی، سزا اور پنجاب اور وفاق میں عمران خان کی حکومت قائم ہونے کے بعد نواز شریف نے واضح اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ اپنایا اور تلخی اس حد تک پہنچ گئی کہ انہوں نے گجرانوالہ میں ایک جلسے کے دوران آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید تک کا نام لے دیا۔ 
یہ وہ وقت تھا جب شہباز شریف اپنے بڑے بھائی کی سوچ سے برملا اختلاف کرتے ہوئے نظر آئے۔ جولائی 2021 میں شہباز شریف کامران خان کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ’ٹکراؤ ہمارا راستہ نہیں، اسے مشاورت ہی ہونا چاہیے کیونکہ اس کے بغیر یہ ملک آگے نہیں چل سکتا۔‘
کامران خان کے ایک سوال، کہ کیا وہ اپنے بھائی نواز شریف کو اسٹیبلشمنٹ سے مفاہمت پر قائل کرلیں گے؟ کا جواب دیتے ہوئے شہباز شریف نے کہا تھا کہ ’وہ میرے بڑے بھائی ہیں، وہ میرے لیڈر ہیں اور میرے والد کی جگہ ہیں۔ اگر مجھے قومی مفاد کے لیے ان کے پاؤں بھی پکڑنے پڑے تو میں پکڑ لوں گا۔‘
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی بھی نہیں کہ شہباز شریف ہمیشہ سے مزاحمت کی بجائے اسٹیبلشمنٹ سے مفاہمت کی پالیسی اپنانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ 

احمد ولید کے مطابق نواز شریف نہیں چاہتے تھے کہ عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزارت اعظمیٰ کی کرسی سے ہٹایا جائے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

لیکن سلمان غنی کے مطابق ’نواز شریف کا مزاحمتی بیانیہ شاید شہباز شریف کے بیانیے سے بہتر تھا۔ اس وقت ن لیگ کے ٹکٹ کی مانگ تھی، پر وہی بیانیہ عمران خان نے اپنا لیا اور اسے پذیرائی بھی ملی اور پچھلے ماہ پنجاب اسمبلی کی 20 نشستوں پر ہونے والے انتخابات میں 15 سیٹیں جیت لیں۔‘

اگلے انتخابات میں شہباز  کا بیانیہ چلے گا یا نواز کا؟ 

لاہور میں موجود ایک اور تجزیہ کار احمد ولید کہتے ہیں کہ انہیں مسلم لیگ (ن) میں دونوں بھائیوں میں سیاسی اختلافات ’گڈ کوپ اور بیڈ کوپ‘ سے زیادہ کچھ نظر نہیں آتے۔ 
انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ہم 1990 کی دہائی سے سن رہے ہیں کہ خاندان میں اختلافات ہو گئے ہیں اور آج اس بات کو سنتے سنتے سالوں گزر گئے لیکن دونوں بھائی آج بھی ساتھ ہیں۔‘
ان کی سوچ مختلف ضرور ہے لیکن وہ گڈ کوپ، بیڈ کوپ کھیلتے ہیں۔ شہباز شریف الگ سوچ رکھنے کے باوجود بھی کبھی نواز شریف کا حکم نہیں ٹالتے۔‘
انہوں نے کہا کہ اسی طرح شہباز شریف بھی اکثر انہیں اپنی بات پر قائل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ 
نواز شریف نہیں چاہتے تھے کہ عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزارت اعظمیٰ کی کرسی سے ہٹایا جائے کیونکہ ان کے نزدیک پاکستان میں جاری معاشی بحران پارٹی کے لیے نقصان دہ ہوتا۔‘
’لیکن شہباز شریف اور پارٹی کی دیگر شخصیات نواز شریف کو حکومت لینے کے آپشن پر قائل کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔‘
تاہم ان کا یہ کہنا ہے کہ جب تک شہباز شریف اور نواز شریف حیات ہیں خاندان میں دوریاں نظر نہیں آتیں، ’لیکن مریم اور حمزہ کے درمیان تعلقات بعد میں کیسے رہتے ہیں اس کے بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہو گا۔‘

احمد ولید کے مطابق ان کا نہیں خیال کہ نواز شریف چوتھی بار وزیراعظم بننے کی خواہش رکھتے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

نواز شریف چاہتے ہیں کہ مریم ان کی پارٹی کی قیادت کرے اور شہباز شریف کبھی ان کا حکم نہیں ٹالتے۔‘ 

ترجیح صرف پہلوٹھی والے بیٹے کو ملتی ہے‘

کیا نواز شریف کی وطن واپسی کے بعد شہباز شریف بیک سیٹ لے لیں گے؟ 
سلمان غنی اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’نواز شریف کی وطن واپسی یا نااہلی ختم ہونے کی صورت میں شہباز شریف واپس پچھلی سیٹ پر جاکر بیٹھ جائیں گے۔‘
تاہم احمد ولید ان کی اس بات سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’میرا نہیں خیال کہ نواز شریف چوتھی بار وزیراعظم بننے کی خواہش رکھتے ہیں۔ بلکہ وہ عدالتی ریلیف کی صورت میں بھی پارٹی کے قائد رہیں گے اور پیچھے رہ کر معاملات چلائیں گے اور اب یہ ان کی مرضی ہو گی کہ وہ پارٹی کی کامیابی کی صورت میں کسے وزیراعظم نامزد کرتے ہیں۔‘ 
شہباز شریف کی ’فرمانبرداری‘ کے حوالے سے شریف خاندان سے قریب ایک ذریعے نے نام نہ بتانے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’شہباز شریف بہت عرصہ پہلے اپنے بڑے بھائی کی سبقت قبول کر چکے ہیں۔ ایک بار انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ بیٹا ہو تو پہلوٹھی (یعنی پہلا) ہو کیونکہ ترجیح ہمیشہ اسی کو ملتی ہے۔‘

شیئر: