Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان اور برطانیہ میں مجرموں کی حوالگی کا معاہدہ، اطلاق کِن پر ہوگا؟

اس معاہدے کا اطلاق دوہری شہریت رکھنے والے افراد پر نہیں ہوگا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
پاکستان اور برطانیہ کے درمیان مجرمان کی واپسی کے حوالے سے معاہدے پر دستخط ہو چکے ہیں جس کے تحت دونوں ممالک کے درمیان مجرمان کا تبادلہ ممکن ہوسکے گا۔  
اس معاہدے کا اطلاق ان افراد پر ہوگا جو پاکستان یا برطانیہ میں سے کسی ایک ملک کے شہری ہوں گے تاہم دوہری شہریت رکھنے والے افراد پر اس کا اطلاق نہیں ہوگا۔  
اس معاہدے پر دستخط کی تقریب کے موقع پر برطانوی سیکریٹری داخلہ پریتی پٹیل نے کہا کہ ’میں اس معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے ان افراد سے بالکل بھی معذرت نہیں کروں گی جو خطرناک مجرم اور امیگریشن قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے ہیں اور انھیں برطانیہ میں رہنے کا کوئی حق نہیں۔ برطانوی عوام نے ایسے لوگوں کو بہت برداشت کر لیا جو ہمارے قوانین کی خلاف ورزی کرتے تھے لیکن ہم انھیں واپس نہیں بھیج سکتے تھے۔‘  
برطانوی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق وہاں کی جیلوں میں پاکستانی ساتویں بڑی تعداد میں ہیں جو کہ کل غیرملکی قیدیوں کا تین فیصد ہیں۔  
اس معاہدے پر کام پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے شروع کیا تھا اور عمومی تاثر یہی دیا جاتا رہا کہ اس طرح کے معاہدے سے سابق وزیراعظم نواز شریف اور سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو واپس لانے کی راہ ہموار ہوگی۔ تاہم پاکستانی اور برطانوی حکام کے مطابق اس معاہدے کا اطلاق ان پر اس لیے بھی نہیں ہوگا کہ وہ دونوں طبی بنیادوں پر برطانیہ میں مقیم ہیں۔  
دوسری جانب برطانیہ پاکستان کے ساتھ اس طرح کے معاہدوں سے بہت پہلے یہ کہہ چکا ہے کہ وہ ایسے معاہدوں کا سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں ہونے دے گا اور پاکستان کی جانب سے بھی اس کی ضمانت فراہم کی گئی ہے۔  

ماضی میں پاکستان نے برطانیہ کو مطلوب بعض ملزمان کو عدالت کی اجازت سے حوالے کیا تھا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

جون 2019 میں اس وقت کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب میں برطانوی وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ ’بہت واضح انداز میں (کہنا چاہتا ہوں کہ) برطانوی حکومت کے دستخط شدہ کسی معاہدے میں سیاسی بنیادوں پر حوالگی کی اجازت نہیں ہو گی۔ ان کی اس بات کی وہاں موجود پاکستانی وزیر خارجہ نے بھی فوری تائید کی اور کہا کہ ’پاکستان حوالگی کے معاہدے کو سیاسی انتقام کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہتا۔‘ 
حکام کے مطابق اس معاہدے کے تحت اگر کسی فرد کو پاکستان کی کسی عدالت کی جانب سے سزا سنائی جا چکی ہو لیکن وہ برطانیہ میں مقیم ہو تو حکومت ان کو وہاں سے واپس لا سکے گی۔ اسی طرح اگر کسی نے برطانیہ میں کوئی جرم کیا اور وہاں کی عدالت نے اسے سزا سنائی ہو لیکن وہ پاکستان آ گیا ہو تو حکومت پاکستان اسے برطانیہ کے حوالے کرنے کی پابند ہوگی۔  
برطانیہ میں مقیم پاکستانی نژاد سولیسٹر عقیل کیانی کے مطابق پاکستان کی حکومت اصل معاہدے سے پیچھے ہٹی ہے کیونکہ اصل معاہدہ ملزمان کی حوالگی کا تھا۔ ملزمان کی حوالگی نہ ہونے سے پاکستان میں بہت سے مقدمات پر کارروائی آگے ہی نہیں بڑھ سکتی جبکہ اس معاہدے میں ’مجرموں کی واپسی‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔  
اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’اس معاہدے سے اصل فائدہ برطانیہ کو ہوا ہے کہ جن کی جیلوں میں سینکروں پاکستانی موجود ہیں یا جیلوں سے باہر بھی ہزاروں افراد ہوں گے جو پاکستان میں مجرم ہیں لیکن وہاں عوامی پیسے سے مستفید ہو رہے ہیں۔ اب برطانیہ ہزاروں کے حساب سے لوگوں کو پاکستان بھیجے گا جبکہ پاکستان میں ایسے افراد کی تعداد انتہائی کم ہے۔‘  
ان کے مطابق برطانیہ نے گزشتہ دو برس کے دوران مختلف ممالک کے ساتھ ایسے معاہدے کیے ہیں جس کی بنیادی وجہ اپنے ملک سے ایسے تمام افراد کو نکالنا ہے جو مجرمانہ ذہنیت رکھتے ہیں اور معاشرے کے لیے خطرہ ہیں۔ اس معاہدے سے صرف اور صرف برطانیہ کو ہی فائدہ پہنچنے کا امکان ہے۔ 
دوسری جانب سابق وزیر قانون خالد رانجھا کا کہنا ہے کہ ’یہ دراصل قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ ہے۔ جس کے تحت وہ افراد جو پاکستان یا برطانیہ کی جیلوں میں قید ہوں گے اور وہ اس خواہش کا اظہار کریں کہ وہ اپنی بقیہ قید اپنے ملک میں پوری کرنا چاہتے ہیں تو اس معاہدے کے تحت انھیں یہ سہولت دی جائے گی۔‘  
اردو نیوز سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ ’برطانیہ میں پاکستانی قیدیوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ وہاں پر قید تنہائی گزارتے ہیں کیونکہ اکثریت کے خاندان پاکستان میں مقیم ہوتے ہیں۔ اس لیے کسی بھی قیدی کی یہ شدید خواہش ہوتی ہے کہ کوئی اس سے ملنے آئے۔ اس لیے اس معاہدے کے بعد یہ ہو جائے گا کہ وہ اپنی بقیہ قید پاکستان میں گزار سکیں گے اور ان کے رشتہ دار ان سے ملاقات کر سکیں گے۔‘  
ایک سوال کے جواب میں خالد رانجھا نے کہا کہ ’یہ معاہدہ کسی بھی صورت میں عوامی فلاح کا معاہدہ ہے چاہے اس سے برطانوی شہریوں کو فائدہ پہنچے یا کوئی پاکستانی مستفید ہو لیکن اس معاہدے سے کسی بھی ایسے فرد کو بشمول نواز شریف پاکستان واپس نہیں لایا جا سکتا اور نہ برطانیہ بھیجا جا سکتا ہے جس کا تعلق سیاست سے ہو اور اس کا یہ دعویٰ ہو کہ اس کے خلاف مقدمات سیاسی نوعیت کے ہیں۔  

شیئر: