Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’عمران خان کا بیان قابل مواخذہ، مقدمہ درج کرنے کا جائزہ لے رہے ہیں‘

وزیر داخلہ نے بتایا کہ وزارت قانون سے عمران خان کے خلاف نئے مقدمے پر رائے مانگی ہے۔ فوٹو: اے پی پی
پاکستان کے وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے تحریک انصاف کے رہنما شہباز گِل پر تشدد کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ خاتون جج اور پولیس افسران کے خلاف عمران خان کا بیان قابل مواخذہ ہے۔
اتوار کو اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس میں وزیر داخلہ نے کہا کہ شہباز گِل نے نجی ٹی وی پر جو کچھ کہا وہ پہلے سے طے شدہ تھا اور اس کے پیچھے عمران خان تھے۔ ’پی ٹی آئی کا بیانیہ غیرملکی ایجنڈا ہے۔‘
رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ ماضی میں سیاست دان اسٹیبلشمنٹ اور اس کے سیاست میں کردار پر تنقید کرتے رہے ہیں مگر کسی شخص نے بھی فوج کے اندر کمانڈ کی حکم عدولی کی ترغیب نہیں دی۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ کوئی بھی ادارہ اس طرح کے بیانات برداشت کرتا ہے اور نہ ہضم کر سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ نو اگست کو شہباز گِل کے خلاف مقدمے کے اندراج کے بعد گرفتاری عمل میں لائی گئی اور وہ تین دن پولیس کی حراست میں رہے۔
’پہلی پیشی پر شہباز گل مسکرا کے عدالت آ رہے تھے۔ انہوں نے جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے کسی تشدد کی شکایت نہیں کی۔‘
گیارہ اگست کو اُن کا طبی معائنہ کیا گیا جس میں کسی تشدد کا کوئی ذکر نہیں۔ نہ ہی میڈیکل بورڈ کے سامنے شہباز گِل نے تشدد کی کوئی شکایت کی۔‘
وزیر داخلہ نے کہا کہ اڈیالہ جیل میں چھ دن کے دوران شہباز گِل نے کسی تشدد کی شکایت نہیں کی۔ پہلی بار 17 اگست کو تشدد کی بات سامنے لائی گئی۔
’بطور وزیر داخلہ پوری ذمہ داری کے ساتھ شہباز گِل پر تشدد کی تردید کرتا ہوں۔‘
رانا ثنااللہ نے کہا کہ سانس کی تکلیف کا ذکر شہباز گِل نے جیل سے عدالت میں پیش ہونے پر کیا۔ ’اڈیالہ جیل میں شہباز گِل کو کیا ہوا اس کا جواب پنجاب حکومت دے گی۔‘

سابق وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد کی خاتون جج زبیا چوہدری کے خلاف ’ایکشن‘ لینے کا بیان دیا تھا۔ فوٹو: عمران خان انسٹاگرام

انہوں نے کہا کہ ’شہباز گِل پر تشدد کی باتیں مکمل طور پر ڈرامہ ہے اور یہ شہدا کی توہین کی مہم اور فوج کے اندر بغاوت کے بیان سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔‘ 
وزیر داخلہ نے کہا کہ عمران خان کا بیان قابل مواخذہ ہے اور اس کا جائزہ لیا جا رہا ہے کہ اس پر الگ سے مقدمہ درج کیا جائے یا اس کو پہلے سے درج مقدمے کا حصہ بنایا جائے۔ ’وزارت قانون اور ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد سے رائے طلب کی گئی ہے۔‘

شیئر: