Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جوش کے بجائے ہوش سے کام لیں: ماریہ میمن کا کالم

پی ٹی آئی پر پابندیوں کا بھی عندیہ دیا جا رہا ہے۔ (فوٹو: روئٹرز)
پاکستان کی پچھترویں سالگرہ بھی سیاست میں جاری تصادم کو کم نہیں کر سکی۔ ایک طرف عمران خان کے چیف آف سٹاف شہباز گل کی گرفتاری اور ان کے ساتھ ہونے والے مبینہ ناروا سلوک پر ہلچل رہی تو دوسری طرف عمران خان کی تقریر براہ راست دکھانے پر پابندی نے اظہار رائے پر موجود قدغنوں میں اضافہ ہی کیا ہے۔ اے آر وائی پر بھی پابندی بدستور قائم ہے۔
ادھر پنجاب حکومت بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دیتے ہوئے ن لیگ کے رہنماؤں کے گھروں پر چھاپے مار رہی ہے۔ عمران خان کی نااہلی کی خبریں بھی گرم ہیں اور پی ٹی آئی پر پابندیوں کا بھی عندیہ دیا جا رہا ہے۔ یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا ہے جب کے ملک کا ایک بڑا حصہ شدید بارشوں کی وجہ سے زیر آب ہے۔ مہنگائی نے عوام کو رلا دیا ہے اور تیل کی قیمتیں کم ہونے کے بجائے بڑھتی جا رہی ہیں۔ 
عمران خان فی الحال ملکی سیاست کا محور ہیں۔ سیاسی بیانیے کی تشکیل انہی کی طرف سے ہو رہی ہے۔ ایک طرف انہوں نے اپنے نکالے جانے کو ایک کامیاب تحریک میں بدل دیا ہے تو دوسری طرف ضمنی الیکشن میں کامیابی اور پنجاب حکومت حاصل کر لینے کے بعد وہ اپنے آپ کو ایک سیاسی قوت کے طور پر ثابت کر چکے ہیں۔
نو حلقوں سے براہ راست الیکشن لڑنے کے اعلان کے بعد انہوں نے مخالفین کی طرف سے بظاہر پھینکے گئے ٹرمپ کارڈ کا اثر بھی زائل کر دیا ہے۔
وہ الیکشن ہار بھی جائیں تو ان کی سیاسی پوزیشن میں کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ اگر آدھی سے زیادہ سیٹوں پر جیت گئے تو پی ڈی ایم کی سیاسی پوزیشن مزید دگرگوں ہو جائے گی، اور جیتے گئے حلقوں پر ایک بار پھر ضمنی الیکشن کروانے پڑیں گے۔

اسلام آباد پولیس شہباز گل کو حراست میں لینے کے لیے پنجاب پولیس کے ساتھ براہ راست تصادم تک جا پہنچی۔ (فائل فوٹو: پی آئی ڈی)

عمران خان کی طرف سے الیکشن کمیشن پر کھلی تنقید کے بعد سرکاری عہدیداروں کو بھی سنگین نتائج کی دھمکی دی گئی ہے۔ اندازہ یہ بھی ہے کہ عمران خان کا لہجہ سخت سے سخت تر ہی ہو گا۔  یہی سخت ردعمل کسی تصادم کا پیش خیمہ بھی بن سکتا ہے۔
عمران خان کے لفظی وار اگر ایک طرف ہیں تو دوسری طرف رانا ثنااللہ کے طرح طرح کے بیانات۔ تحریک انصاف کے رہنماؤں کو ایف آئی کی طرف سے نوٹس مل چکے ہیں۔ سائبر کرائم ونگ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا پر متحرک کارکنوں کے خلاف کارروائیوں میں بڑھ چڑھ کر پیش پیش ہے۔
اسلام آباد پولیس شہباز گل کو حراست میں لینے کے لیے پنجاب پولیس کے ساتھ براہ راست تصادم تک جا پہنچی۔ وزیر داخلہ کے ساتھ شانہ بشانہ وزیر اطلاعات و نشریات بھی ہیں۔ پیمرا نصف شب بھی آدھ درجن صفحوں کے حکم نامے جاری کر رہا ہے۔
پیپلز پارٹی کھل کر سامنے نہیں آ رہی مگر ان کی حکومت کے ماتحت پولیس کراچی میں ایف آئی آر درج کرنے سے بالکل نہیں ہچکچائی۔ پی ڈی ایم کی قیادت کا نیا بیانیہ ہے ’لیول پلیئنگ فیلڈ‘ یعنی جو کچھ ان کی قیادت کے ساتھ ہوا وہ اب چاہتے ہیں کہ پی ٹی آئی اور عمران خان کے ساتھ بھی ہو۔ اس سارے عمل کی اصولی حیثیت اپنی جگہ مگر اس حکمت عملی پر کئی سوالیہ نشان نظر آتے ہیں۔
عمران خان کی طرف سے اس کا سیاسی ردعمل بھی آئے گا اور پنجاب حکومت کے پلیٹ فارم سے انتظامی کارروائی بھی متوقع ہے۔ یہی صورتِ حال ایک تصادم کی طرف جا سکتی ہے۔

عمران خان فی الحال ملکی سیاست کا محور ہیں۔ (فوٹو: روئٹرز)

اس سارے ماحول میں اہم کردار اداروں اور مقتدر حلقوں کا بھی ہے۔ وہاں بھی لچک کی ضرورت ہے۔ انتظامی کارروائی میں فی الحال کوئی ریلیف نظر نہیں آتا باوجود اس کے کہ تقریباً تمام پی ٹی آئی نے شہباز گل کے بیانات سے لاتعلقی ظاہر کی ہے۔
ایک چینل کی بندش سے سینکڑوں محنت کش صحافی ایک خوف اور اضطراب میں کام کر رہے ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ایک نئی تشویش سامنے آتی ہے۔ کیا اس صورتحال اور ماحول کو معمول کے حالات کا مظہر کہا جا سکتا ہے؟ 
ابھی تک تمام فریق جذبات اور جوش میں ہیں۔ یہ جوش تصادم کے علاوہ اور کسی طرف نہیں جائے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے جوش کے بجائے ہوش سے کام لیا جائے۔
ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ تصادم کے بجائے تسلسل اور ٹھہراؤ کا راستہ نکالا جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ معاملے کے تمام فریق اپنی پوزیشنز پر نظر ثانی کریں۔ پی ٹی آئی کی اب دو صوبوں میں حکومت ہے جو استعفے دینے کا بالکل کوئی ارادہ نہیں رکھتیں۔ اس دوران قومی اسمبلی کا بائیکاٹ صرف علامتی حیثیت ہی رکھتا ہے۔ اگر وہ اسمبلی میں واپس آئیں گے تو اس سے ان کی سیاسی حیثیت کمزور نہیں مضبوط ہی ہو گی۔
دوسری طرف حکومت اور مقتدر حلقوں کو پی ٹی آئی کے خلاف اقدامات کو بریک لگانی چاہیے۔ پی ٹی آئی اور عمران خان ایک سیاسی حقیقت ہیں اور پابندیوں سے ان کی سیاست کو کوئی خاص فرق بھی پڑنے والا نہیں۔

حکومت اور مقتدر حلقوں کو پی ٹی آئی کے خلاف اقدامات کو بریک لگانی چاہیے۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

تمام پارٹیاں اس بات پر بھی متفق ہیں کہ اقتدار کا فیصلہ انتخابات میں ہی ہونا چاہیے۔ جہاں تک بات ہے انتخابات کی تاریخ کی تو حالیہ دنوں میں پی ٹی آئی کی طرف سے بھی اس میں لچک نظر آئی ہے۔ ان کو خود بھی اندازہ ہے کہ ایک طرف مہنگائی اور دوسری طرف ان کی سیاسی سرگرمیوں سے ان کا بیانیہ بدستور مقبول ہے۔
پنجاب حکومت میں آنے سے ان کا سسٹم میں مزید رول بڑھ چکا ہے۔ اگر ان کی طرف سنجیدہ ہاتھ بڑھایا جائے تو وہ یقیناً اس کا مثبت جواب دیں گے۔ تمام فریقین کو سوچنا ہے کہ ملک تصادم کو متحمل نہیں ہو سکتا۔ دانشمندی اور تحمل سے ہی سیاست آگے بڑھ سکتی ہے اور ملک بھی۔

شیئر: