Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

طوفان سے پہلے سکون؟ ماریہ میمن کا کالم 

پی ٹی آئی کے 11 استعفے قبول کر کے پی ڈی ایم نے ایک طرف پی ٹی آئی کو مخمصے میں ڈالا ہے (فوٹو: ٹوئٹر)
گذشتہ کچھ ہفتوں کے ہیجان اور ہلچل کے بعد کچھ دنوں سے کچھ سکون ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سکون کا مقابلہ چھے مہینے پہلے والے حالات سے نہیں کیا جا سکتا مگر ہر روز بلکہ لمحہ بہ لمحہ بدلتی ہوئی صورتحال میں یہ سکون بھی غنیمت سے کم نہیں۔
پنجاب میں سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے انتخابات نسبتا آرام سے ہو گئے۔ ڈپٹی سپیکر کے انتخاب میں تو اپوزیشن نے سہولت سے الیکشن سے ہی کنارہ کشی اختیار کر لی۔
عمران خان صاحب کے روزانہ کے دھواں دھار خطابات میں بھی کچھ وقفہ ہے اور بیانات میں بھی جارحیت کچھ کم نظر آئی ہے۔
پی ڈی ایم اور وفاقی حکومت کی طرف سے روایتی پریس کانفرنس روزانہ کی بنیاد پر ہو رہی ہے مگر ایسا کچھ خاص نظر نہیں آ رہا جو کہ سیاسی میدان میں تلاطم پیدا کر دے۔
سوال یہ ہے کہ کیا یہ سکون کسی طوفان کا پیش خیمہ ہے یا پھر کچھ ایسا بندوبست ہوا ہے جس میں جملہ فریقوں نے کچھ عرصہ کے لیے سیاسی محاذ پر غیر اعلانیہ ٹھہراؤ کا ارادہ کیا ہے؟ 
ایسا بھی نہیں ہے کہ معاملات واضح سلجھاؤ کی طرف جا رہے ہیں، اور ایسا بھی نہیں ہے کہ مکمل سیز فائر ہوتا نظر آ رہا ہو۔ پی ٹی آئی کے طرف سے چیف الیکشن کمشنر کے خلاف باقاعدہ ریفرنس فائل کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔
دوسری طرف قومی اسمبلی میں 11 لوگوں کے استعفے قبول کر کے اگلی پلاننگ کا اشارہ دیا گیا ہے۔
ن لیگ کے طرف سے فنانشل ٹائمز کی خبر کو بھی کافی اٹھایا گیا اور چونکہ اس خبر کا ایک پہلو فارن فنڈنگ کیس کے ساتھ ہے، اس لیے یہ بیانیہ بنانے کی بھی بھر پور کوشش کی گئی کہ فارن فنڈنگ یا ممنوعہ فنڈنگ کے کیس میں واقعی جان ہے۔
اس سب کے دوران ہونے والی مہنگائی اور ڈالر کی اڑان پر بھی ایک طرف سے وفاقی حکومت پر تنقید اور دوسری طرف سے وضاحتیں بھی جاری ہیں۔
 سیاسی حالات کی موجودہ قسط جس کو سکون یا ٹھہراؤ جو بھی نام دیا جائے، اس کی وجہ پنجاب میں تحریک انصاف اور ق لیگ کی مشترکہ حکومت کا قیام ہے۔
پنجاب حکومت اور اسی طرح خیبر پختونخواہ حکومت کا کوئی ایسا ارادہ نہیں لگ رہا کہ وہ اسمبلیاں توڑنے کی طرف جائیں۔ خصوصا اگر پنجاب کی طرف دیکھیں تو چوہدری پرویز الہی نے اتنی تگ و دو ظاہر ہے اس لیے تو نہیں کی کہ وہ فورا اقتدار کو الوداع کہہ دیں۔

پی ٹی آئی کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ ایوان میں واپس آئے یا پھر ضمنی انتخاب لڑے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

اگرچہ انہوں نے یہ اعلان ضرور کیا کہ اگر عمران خان کہیں تو وہ اسمبلی توڑنے میں ذرا دیر نہیں لگائیں گے۔ مگر اس میں بھی اگرغور کریں تو ابھی تک انہوں نے کے لیے ایسا واضح موقف اختیار نہیں کیا کہ وہ فوری انتخاب چاہتے ہیں۔
اس سے پہلے جب ان کی پی ڈی ایم سے بات چیت چل رہی تھی تو اس وقت بھی ان کی طرف سے یہ موقف تھا کہ وہ کچھ ہفتوں کے لیے وزیراعلٰی نہیں بنیں گے۔ موجودہ حالات میں جب ق لیگ کے 10 ووٹ ہی فیصلہ کن ہیں، اس بات کے امکان کم ہیں کہ عمران خان ان کو اس آخری آپشن کے لیے مجبور کریں۔ 
سوال یہ بھی ہے کہ پھر فوری انتخابات کے کیا امکانات ہیں؟ 
دلچسپ صورتحال یہ ہے ایک طرف نواز شریف کا قریب گروپ انتخابات کے حق میں ہے اور دوسری طرف عمران خان انتخابات چاہتے ہیں، مگر دونوں کی ہی مرضی نہیں چل رہی۔
پی ٹی آئی کے 11 استعفے قبول کر کے پی ڈی ایم نے ایک طرف پی ٹی آئی کو مخمصے میں ڈالا ہے اور دوسری طرف ایک راستہ بھی نکالا ہے۔ اب پریشر کے ذریعے انتخاب کی طرف جانے کا امکان محدود ہے اور دونوں صوبائی حکومتوں کی طرف سے بھی جلدی انتخابات کی طرف کوئی قدم نہیں اٹھایا جا رہا۔
پی ٹی آئی کو ایک طرف مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ ایوان میں واپس آئے یا پھر ضمنی انتخاب لڑے اور اگر تین چار نشستوں پر بھی دوسری جماعتیں کامیاب ہوتی ہیں تو اس سے ایوان میں ان کے لیے  توازن بھی بہتر ہو گا اور دوسری طرف ان کے گرتی ہوئی مقبولیت کو بھی سہارا ملے گا۔ اب گیند پی ٹی آئی کے کورٹ میں ہے کہ وہ کس طرف جاتے ہیں۔ ویسے اعلانیہ استعفے واپس لینے کا امکان کم ہے۔
سیاسی ہلچل کے ساتھ معیشت کی  صورتحال بدستور دگرگوں ہے۔ تیل کے ساتھ ساتھ بجلی کے قیمتیں بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ ڈالر کی صورتحال کو لے کر ڈیفالٹ کی باتیں ہو رہی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مختلف غیر سرکاری حلقوں کی طرف سے ممعیشت پر ایک قومی ایجنڈے کی باتیں ہو رہی ہیں۔
فوجی سربراہ کی طرف سے کی گئی کوشش پر بھی کوئی خاص ردعمل سامنے نہیں آیا۔ ان حالات میں سیاسی سکون معیشت کے لیے ضروری بھی ہے۔
سوال البتہ یہ ہے کہ یہ سکون کب تک رہے گا۔ فوری طور پر الیکشن کمیشن کا فارن فنڈنگ کا فیصلہ اس سکون کو طوفان میں بدل سکتا ہے۔ اس لیے غالباً اس فیصلے میں تاخیر ہو رہی ہے اور یا پھر یہ فیصلہ آئے بھی تو اس کا اثر انتہائی نہ ہو جس کے دعوے کیے جا رہے ہیں۔  بصورت دیگر یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ عوامی اور سیاسی دونوں میدانوں میں نئی ہلچل شروع ہو جائے گی۔ فی الحال البتہ سکون بھی غنیمت ہے۔

شیئر: