Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایران 2015 کے معاہدے کے مطابق جوہری معائنے کی اجازت پر متفق

اجازت قدیم معاہدے کے تحت دی جائے گی نہ ایک قدم زیادہ اور نہ ایک قدم کم۔ فوٹو روئٹرز
ایران میں جوہری توانائی کی تنظیم کے سربراہ نے بدھ  کو کہا ہے کہ ہمارا ملک 2015 کے جوہری معاہدے سے ہٹ کر کسی قسم کے معائنے کی اجازت نہیں دے گا۔
روئٹرز نیوز ایجنسی کے مطابق امریکہ عالمی طاقتوں کے ساتھ مل کر تہران کے جوہری معاہدے کو بحال کرنے کی تجویز کا جواب دینے کی تیاری کر رہا ہے۔

ایران سے جوہری معاہدہ  سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ختم کر دیا تھا۔ فوٹو روئٹرز

ایران کی جوہری توانائی کی تنظیم کے سربراہ محمد اسلامی نے کہا کہ ہم  ماضی میں کئے گئےجوہری معاہدے کے فریم ورک میں ان معائنے کے لیے پرعزم اور متفق ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ معاہدے ان جوہری پابندیوں سے منسلک ہیں جنہیں ہم ماضی میں قبول کر چکے ہیں۔ معائنے کی اجازت اسی معاہدے کے تحت دی جائے گی نہ ایک قدم زیادہ اور نہ ایک قدم کم۔
واضح رہے کہ پیر کے روز ایک سینئر امریکی اہلکار نے کہا تھا کہ ایران نے جوہری پروگرام سے متعلق معاہدے کو دوبارہ بحال کرنے کے لیے اپنے کچھ اہم مطالبات پر دوبارہ غور کرنے کی بات کی ہے۔
امریکی اہلکار کا کہنا ہے کہ ان مطالبات میں یہ اصرار بھی شامل ہے کہ بین الاقوامی معائنہ کار ایران کے جوہری پروگرام کی کچھ تحقیقات بند کر دیں، جس سے معاہدے کے امکانات قریب آ رہے ہیں۔

نیا مسودہ امریکہ، فرانس، برطانیہ اور جرمنی نے تیار کیا تھا۔ فوٹو روئٹرز

واشنگٹن کا مقصد یورپی یونین کے تجویز کردہ معاہدے کے مسودے کا جلد ہی جواب دینا ہے۔
یہ معاہدہ ایران کے ساتھ 2015 کے جوہری معاہدے کو واپس لائے گا جسے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ختم کر دیا تھا جب کہ موجودہ صدر جو بائیڈن نے معاہدہ  بحال کرنے کی کوشش کی ہے۔
ایران کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ہمارے ساتھ  جوہری معاہدے کو صرف اسی صورت میں بچایا جا سکتا ہے جب بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) تہران کے جوہری کام کے بارے میں اپنے دعووں سے دستبردار ہو جائے۔

یہ معاہدے ان پابندیوں سے منسلک ہیں جو ماضی میں قبول کر چکے ہیں۔ فوٹو روئٹرز

واشنگٹن اور دیگر مغربی طاقتیں تہران کے مطالبے کو جوہری معاہدے کی بحالی کے دائرہ کار سے باہر دیکھتی ہیں۔
اقوام متحدہ کے جوہری نگراں ادارے کے 35 ملکی بورڈ آف گورنرز نے جون میں بھاری اکثریت سے ایک قرارداد منظور کی تھی جس کا مسودہ امریکہ، فرانس، برطانیہ اور جرمنی نے تیار کیا تھا۔
اس مسودے میں ایران پر تنقید کی گئی تھی کہ تین غیر اعلانیہ مقامات پر پائے جانے والے یورینیم کے آثار کی وضاحت کرنے میں ایران ناکام رہا ہے۔
ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی ارنا میں بدھ کو شائع ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جوہری توانائی تنظیم کے سربراہ محمد اسلامی نے ایران کے اس دعوے کو دہرایا ہے کہ یورینیم کےغیر واضح نشانات کے دعوے جلاوطن ایرانی مخالفین اور ایران کے قدیم دشمن اسرائیل کی جانب سے کئے گئے ہیں۔
 

شیئر: