Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا ’قسم‘ بھی کوئی کھانے والی چیز ہے؟

’سوگند‘ فارسی میں گندھک کو کہتے ہیں، یہ شدید بودار اور بد ذائقہ ہوتی ہے۔ (فوٹو: یوٹیوب)
خدا کی قسم اس نے کھائی جو آج
قسم ہے خدا کی مزا آ گیا
قسم کھانا اور قسم اٹھانا اردو زبان کے عام محاورات ہیں۔ جہاں تک قسم اٹھانے کی بات ہے تو گاہے اپنی بات کی صداقت یا عہد و پیمان کے موقع پر مُصحف اٹھایا جاتا ہے، اور اس اٹھانے سے قسم اٹھانے کا مفہوم پیدا ہوا ہے۔
الجھن ’قسم کھانا‘ کا محاورہ پیدا کرتا ہے کہ یہ عمل خور و نوش سے یکسر خالی ہوتا ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ ’قسم‘ کے ساتھ ’کھانے‘ کا مفہوم کیوں کر پیدا ہوا اور کس راہ سے یہ محاورہ اردو زبان کا حصہ بنا؟
’قسم‘ عربی الاصل لفظ ہے، جو سنسکرت میں ’شَپتھ‘  ہے مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ ہندی نے سنسکرت کے ’شپتھ‘ کے مقابلے میں فارسی کا ’سوگند‘ قبول کیا، جو پنجابی میں پہنچ کر ’سوں‘ ہو گیا ہے، جس کے دیگر تلفظ ’سہوں اور سہونہہ‘ ہے۔
’سوگند‘ فارسی میں گندھک کو کہتے ہیں، یہ شدید بودار اور بدذائقہ ہوتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ قدیم ایران میں کسی الزام میں دھر لیے جانے والے کو اپنی بے گناہی کا ثبوت گندھک ملا پانی پی کر دینا ہوتا تھا۔ اسی سے محاورہ ’سوگند یاد کردن‘ اور ’سوگند خوردن‘ بنا جسے اردو و ہندی میں بصورت ’سوگند کھانا اور قسم کھانا‘ اختیار کر لیا گیا۔
اس وضاحت کے ساتھ اب ’سراج اورنگ آبادی‘ کا شعر ملاحظہ کریں جس میں وہ ’سوگند کھانے‘ کا ذکر کر رہے ہیں۔
اے دلِ بے ادب اس یار کی سوگند نہ کھا
تو ہر اک بات میں دل دار کی سوگند نہ کھا

صحرائے عرب میں اگر کسی مقام پر پانی بآسانی دستیاب ہوجاتا تو اُسے ’ماء رفق‘ کہا جاتا تھا۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

لفظ ’گندھک‘ پر غور کریں تو اسے صفاتی نام پائیں گے۔ وہ یوں کہ ’گندھک‘ کی اصل ’گند‘ ہے، جس کے معنی بدبو، بساند اور تعفن کے ہیں۔ پھر اسی ’گند‘ سے لفظ گندا اور گندگی بھی ہیں جو نجاست اور غلاظت کے ساتھ ’بدبو‘ کا مفہوم بھی رکھتے ہیں۔
چوں کہ ’سلفر‘ کی ’گند‘ شدید ناگوار ہوتی ہے سو اس نسبت سے اسے ’گندک / گندھک‘ کہا جاتا  ہے۔
بدذائقہ گندھک کے بعد اب خوش ذائقہ شہد کا ذکر ہو جائے۔ سنسکرت میں شہد کو ’مدھو‘ کہتے ہیں، چونکہ شہد میٹھا ہوتا ہے، سو اس رعایت سے مٹھاس بھی ’مدھو‘ کہلاتی ہے۔ اس ’مدھو‘ ہی کی نسبت سے شہد کی مکھی کو ’مدهوماکشیکا‘ کہا جاتا ہے۔
برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ ’مدهوماکشیکا‘ کے جُز ثانی یعنی ’ماکشیکا‘ پر غور کریں، اس میں موجود مکشی‘ کو لفظ ’مکھی‘ کی اصل پائیں گے۔ یہی سبب ہے کہ سنسکرت کی ’مادهوماکشیکا‘ ہندی میں ’مدھو مکھی‘ کہلاتی ہے۔
خیر ذکر تھا میٹھے کا تو اس کی نسبت سے میٹھی اور رسیلی آواز کو ’مدھر‘ کہتے ہیں، جب کہ میٹھے کے تعلق سے پیدا ہونے والا مرض یعنی ذیابیطس  (Diabetes)مدھومیھ‘ کہلاتا ہے۔
اگر غور کریں عربی ’ذیابیطس‘ اور انگریزی کے  Diabetesکو ایک ہی لفظ کی دو صورتیں پائیں گے۔ واقعہ بھی یہی ہے کہ ان دونوں لفظوں کی اصل یونانی زبان کا ڈائبینین (diabainein) ہے۔
خود ’ڈائبینین‘ کے معنی ’کھڑے ہونے‘ اور ’ٹانگوں کو الگ کر کے چلنے‘ کے ہیں۔

سنسکرت میں شہد کو ’مدھو‘ کہتے ہیں۔ (فوٹو: روئٹرز)

رہی بات یہ کہ ’ڈائبینین‘ مخصوص بیماری کے معنی میں کیوں استعمال کیا گیا، اس کا ذکر کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں، سرِدست اس مرض کی رعایت سے معروف مزاح گو شاعر سید محمد جعفری کی نظم بعنوان ’ذیابیطس کے مریض‘ سے ایک شعر ملاحظہ فرمائیں:
ہو ذیابیطس جسے اس کی دوا پرہیز ہے
ہے رفیقِ زندگی یہ دکھ جو درد آمیز ہے
شعر بالا میں لفظ ’رفیق‘ آیا ہے، جس کی جمع ’رفقاء‘ ہے۔ جب کہ ’رفاقت‘ بھی اسی سے ہے۔ دراصل عربی میں ’رَفَقُ‘ کے معنی آسان دستیابی کے ہیں۔ اسی لیے صحرائے عرب کے کٹھن و کٹھور ماحول میں اگر کسی مقام پر پانی بآسانی دستیاب ہوجاتا تو اُسے ’ماء رفق‘ کہا جاتا تھا۔
اعراب (یعنی زیر زبر پیش) کی معمولی سے تغیر کے ساتھ ایک لفظ ’رِفْقُ‘ بھی ہے اور اس کے معنی میں ’نرمی، نرم برتاؤ، مہربانی، رحم، شفقت، ترس اور حُسن سلوک‘ داخل ہیں۔ چونکہ ایک دوست ان تمام صفات کا حامل ہوتا ہے اس لیے وہ ’رفیق‘ کہلاتا ہے۔
اب رفیق کی رعایت سے بختیار ضیا کا ایک خوبصورت شعر ملاحظہ کریں:
دلبر کہا، رفیق کہا، چارہ گر کہا
جو کچھ بھی تم کو ہم نے کہا، سوچ کر کہا

شیئر: