Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سرد جنگ: امریکی و روسی صدور کی دوستی دشمنی پر کیسے غالب آئی؟

ریگن اور گورباچوف دونوں ہی امن کی خواہش رکھتے تھے (فوٹو: اے ایف پی)
سنہ 1990 میں سوویت یونین کے صدر میخائل گورباچوف نے امریکی دارالحکومت واشنگٹن کی ایک سڑک پر قدم رکھا اور بڑی گرم جوشی سے عام لوگوں سے ہاتھ ملانا شروع کیے۔ لیکن سیاسی اظہار کا یہ انداز ان کے دوست اور امریکی صدر رونالڈ ریگن کے لیے قدرے غیرمانوس تھا۔ 
ریگن اور گورباچوف نے اپنے ممالک کے درمیان دہائیوں سے چلنے والی کشیدگی کو ختم کرتے ہوئے تعلقات کے ایک غیرمتوقع سلسلے کا آغاز کیا جس سے بالآخر عالمی سیاست میں ایک اہم تبدیلی آئی۔
کہا جاتا ہے کہ آغاز میں سوویت رہنما اور ان کے امریکی ہم منصب میں کچھ بھی مشترک نہیں تھا۔
دونوں کا تعلق ایسے ممالک سے تھا جن میں اعتماد کا شدید فقدان تھا مگر جب 1981 میں ریگن نے صدارت کا عہدہ سنبھالا تو ان کے بنیادی مقاصد میں سب سے اہم نکتہ یہی تھا کہ کولڈ وار یعنی سرد جنگ کو ختم کیا جائے اور روس کے ساتھ تعلقات بہتر کیے جائیں۔
سرد جنگ کو ختم کرنے کے لیے صدر ریگن نے آغاز میں کمیونسٹ پارٹی کے اہم عہدیداروں سے رابطے کیے تاہم انہیں مثبت جواب نہیں ملا۔ 
صدر ریگن کے اس وقت مشیر جیک میٹلاک، جو بعد ازاں ماسکو میں سفیر رہے، نے بتایا کہ جب مارچ 1985میں گورباچوف کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکریٹری بنے تو وائٹ ہاؤس کو لگا کہ اب تعلقات میں کچھ حد تک بہتری آ سکتی ہے۔
جیک میٹلاک نے مزید بتایا کہ صدر ریگن نے صدارت کے ایام  کے شروع میں سوویت یونین کو ایک ’ایول ایمپائر‘ قرار دیا تھا تاہم وہ بات چیت کے حامی تھے۔

ابتدا میں گورباچوف اور ریگن کے درمیان تعلقات زیادہ خوشگوار نہیں تھے۔ فوٹو: گیٹی امیجز

میٹلاک کہتے ہیں کہ شروع میں گورباچوف نے صدر ریگن کو زیادہ حوصلہ افزا جواب نہیں دیا تھا تاہم بعد میں دونوں کے درمیان رابطہ شروع ہو گیا اور صرف تین سال کے اندر ہی دونوں کے موقف میں مماثلت دکھائی دینے لگی۔
صدر ریگن کے ساتھ مشیر کے طور پر کام کرنے والے جان لینزوسکی کا کہنا ہے کہ گورباچوف بہت زیادہ آئیڈیلسٹ نہیں تھے۔ 
لنزوسکی کا کہنا ہے کہ ’جب گورباچوف کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکریٹری بنے تو دیکھا کہ سوویت یونین کو کئی مسائل کا سامنا ہے جنہیں انہوں نے حل کرنے کی کوشش کی تاکہ سوویت سسٹم کو بچایا جا سکے۔‘
اس دوران گورباچوف کا ریگن کے ساتھ زیادہ رابطہ برقرار نہ رہ سکا جس پر صدر ریگن کو لگا کہ سوویت یونین کا یہ انداز دونوں ممالک کے لیے خطرناک ثابت ہو گا۔
اس کے بعد صدر ریگن اس نتیجے پر پہنچے کہ زیادہ تیزی کی ضرورت نہیں اور تعلقات کو دھیرے دھیرے بہتر بنانا چاہیے۔
کچھ عرصہ بعد صدر ریگن نے گورباچوف کو واشنگٹن کے دورے کی دعوت دی مگر کوئی واضح جواب سامنے نہیں آیا اور معاملہ مہینوں تک التوا کا شکار رہا۔

گورباچوف اور ریگن کی کوششوں سے کشیدگی کم ہوئی۔ فوٹو: اے ایف پی

میٹلاک نے وہ وقت یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ’پھر بھی وائٹ ہاؤس کو یہ احساس تھا کہ دوسری طرف (سوویت یونین)  بھی جوہری ہتھیاروں کی روک تھام پر بات چیت کی خواہش پائی جاتی ہے۔‘
میٹلاک کے مطابق ’بنیادی طور پر دونوں شخصیات ہی امن چاہتی تھیں۔‘
دونوں رہنماؤں کے درمیان سب سے اہم موڑ نومبر 1985 میں جنیوا میں ہونے والے سربراہی اجلاس کے موقع پر سامنے آیا۔ اس اجلاس میں امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان بات چیت سخت رہی اور بہت کم باتوں پر اتفاق ہوا، تاہم دونوں رہنماؤں کے درمیان علیحدہ ہونے والی ملاقاتوں میں اعتماد کا بیج جڑ پکڑ گیا۔
ایک سال بعد ریگن اور گورباچوف آئس لینڈ کے دارالحکومت ریکجیوک میں ملے اور بات چیت کو کچھ آگے بڑھایا تاہم بہت کم بہتری دیکھنے میں آئی۔
جب گورباچوف 1987 میں واشنگٹن آئے تو اس وقت دونوں کے درمیان خوشگوار ملاقاتیں ہوئیں اور ایٹمی ہتھیاروں کو محدود کرنے کے حوالے سے اہم پیش رفت ہوئی۔

گورباچوف نے صدر ریگن کی آخری رسومات میں شرکت کی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

صدر ریگن کے مشیر جیک میٹلاک کے مطابق ابتدا میں گورباچوف کا خیال تھا کہ صدر ریگن بہت قدامت پسند ہیں، تاہم وقت گزرنے کے ساتھ جب دونوں کی ملاقاتیں ہوئیں اور ایک دوسرے کو سمجھا تو وہ گہرے دوست بن گئے۔
گورباچوف نے سنہ 2004 میں صدر ریگن کی آخری رسومات میں شرکت کے لیے امریکہ کا دورہ بھی کیا تھا۔
جیک میٹلاک کا کہنا ہے کہ ’میرے خیال میں دونوں کے نظریات ایک جیسے تھے، دونوں جوہری ہتھیاروں سے نفرت کرتے تھے اور امید کرتے تھے کہ وہ ان کو ختم کر سکتے ہیں اور یہ سچ تھا۔‘

شیئر: