Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ن لیگی رہنما پر ’ہنسنے والے لڑکوں کی گرفتاری‘، معاملہ کیا ہے؟

پولیس کے مطابق ہوٹل سکیورٹی کی شکایت پر چار لڑکوں کو تھانے منتقل کیا تھا (فائل فوٹو: اسلام آباد پولیس)
پاکستان میں ٹوئٹر ٹائم لائنز پر وزیراعظم پاکستان کے مشیر کا ’مذاق اڑانے والے افراد کے خلاف پولیس کارروائی‘ نمایاں ٹرینڈ بن گیا۔
پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما عطااللہ تارڑ کی تصاویر شیئر کرنے والے ٹویپس نے دعویٰ کیا کہ ’ان پر ہنسنے کے الزام میں اسلام آباد پولیس نے چار لڑکوں کو گرفتار‘ کیا ہے۔

ٹرینڈ میں گفتگو کرنے والے افراد نے کہیں لفظوں اور کہیں میمز کے ذریعے اپنے تاثرات دوسروں تک پہنچائے۔
کالا دنبہ کے ہینڈل سے کیے گئے تبصرے میں لکھا گیا کہ ’عطااللہ تارڑ پر ہنسنے کی پاداش میں جیل جانے والے چار لڑکوں‘ کے معاملے پر مجھے عطاللہ تارڑ پر ہنسی آ رہی ہے۔‘

ہنسنے پر گرفتاری کو حیرت سے بیان کرنے والوں نے ماضی کے معروف ٹیلی ویژن اشتہارات اور ان کے کرداروں کی تصاویر شیئر کرتے ہوئے لکھا ’انہیں بھی گرفتار کر لیں۔‘

گفتگو کے دوران کچھ افراد نے نشاندہی کی کہ ’پولیس کارروائی ہنسنے کی وجہ سے نہیں بلکہ عطااللہ تارڑ کے اہل خانہ پر جملے کسنے اور ہراساں کرنے کی وجہ سے ہوئی ہے۔‘
متعدد ٹویپس نے اہلخانہ کی موجودگی میں کسی کو ہدف بنانے کے عمل پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’سیاسی مخالفت کو اس حد نہیں جانا چاہیے کہ دوسروں کے اہلخانہ اور ذات کو غلط طریقے سے ہدف بنا لیا جائے۔‘
وزیراعظم پاکستان کے مشیر کے ساتھ گزشتہ روز پیش آنے والے واقعے پر اسلام آباد پولیس کا کہنا تھا کہ ’عطااللہ تارڑ کے اہلخانہ کو ہراساں کرنے کی شکایت ریستوران کی سکیورٹی نے کی تھی جس پر چار لڑکوں کو تفتیش کے لیے تھانہ منتقل کیا۔‘

اسلام آباد پولیس کے مطابق ’بعد میں عطااللہ تارڑ کے معاف کرنے پر چاروں لڑکوں کو رہا کر دیا گیا۔‘
پولیس کی وضاحت کے بعد گفتگو کا رخ قدرے بدلا تو متعدد افراد نے گرفتاری کے طریقہ کار اور بغیر مقدمہ حراست میں رکھے جانے پر اعتراض کیا۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے اپنے ردعمل میں پارٹی قیادت کے خلاف مقدمات کا حوالہ دیتے پولیس کارروائی کو ’توہین تارڑ‘ کہا تو مزید لکھا کہ ’اس دور میں اگر کوئی جرم نہیں تو وہ توہین عوام ہے۔‘

نادر بلوچ نے چند نکات کی وضاحت چاہی تو دعوی کیا کہ ’چار دن پہلے کے واقعہ پر گرفتاری گزشتہ روز ہوئی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پولیس بغیر ایف آئی آر اور بغیر وارنٹ کے کیسے گرفتار کر سکتی ہے؟ کیسے چار افراد کو 30 گھنٹے تک حبس بےجا میں رکھا جا سکتا ہے؟‘

پولیس کارروائی پر اعتراض کرنے والوں نے یہ موقف بھی اپنایا کہ ’ماضی میں لیگی رہنما پنجاب اسمبلی کے فلور پر خود ایسا نامناسب انداز اپنا چکے ہیں، جو انہیں نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اب اگر کوئی اور انہی کے انداز میں جواب دے تو اس کے خلاف پولیس کارروائی کو اختیارات کے ناجائز استعمال کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے۔

شیئر: