Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کارما: دھوکے اور انتقام کی کہانی جس میں ہیرو اور ولن کی پہچان مشکل

فلم میں کار ریس کو کچھ اس انداز سے دکھایا گیا ہے کہ ایک لمحے کو ’فاسٹ اینڈ فیوریس‘ ذہن میں آتی ہے (فوٹو: کارما انسٹاگرام)
کہتے ہیں ہر جرم کے پیچھے ایک کہانی ہوتی ہے اور کسی بھی شخص کے مجرم بننے کی بھی کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے۔
ایسی ہی کہانیاں فلم ’کارما‘ کے کرداروں کی بھی ہیں لیکن اس فلم میں دیکھنے والوں کے لیے یہ تعین کرنا مشکل ہوگا کہ اس میں ہیرو اور ولن میں آخر فرق کیا ہے۔
فلم میں اسامہ طاہر نے (ہارون) کا کردار اور نوین وقار نے (ماریہ) کا کردار ادا کیا جبکہ دیگر اداکاروں میں عدنان صدیقی (ہارون کے والد) ژیالے سرحدی (ساشا)، پارس مسرور (حشمت) اور خالد انعم نے (ماریہ کے والد) کا کردار ادا کیا۔
ماں باپ کا اکلوتا بیٹا ہارون خان جو بیرون ملک تعلیم حاصل کررہا تھا اور چار ماہ بعد پاکستان آنے والا تھا لیکن اسے اچانک خبر ملتی ہے کہ اس کے والدین کی ایک کار حادثے میں موت ہوگئی ہے۔
لیکن اسے اس بات کا علم نہیں کہ یہ اموات حادثاتی تھیں یا ان کو قتل کیا گیا ہے؟
بہرحال والدین کے گزر جانے کے بعد ہارون پاکستان منتقل ہوجاتا ہے اور ایک ایسے مرض میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ جس کا ذکر آج کل دنیا کے ہر معاشرے میں سب سے زیادہ کیا جاتا ہے یعنی ’ڈپریشن۔‘
والدین کے انتقال کے بعد ہارون نشے کا عادی ہو جاتا ہے اور نشے میں ڈوب کر اپنا غم بھلانے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ اسے اچھے مستقبل کی کوئی امید دکھائی نہیں دے رہی ہوتی۔
ایسے میں وہ ایک کروڑ پتی ماہر نفسیات سے نام بدل کر رابطہ کرتا اور پھر اسے جینے کی ایک نئی امید نظر آتی ہے اور پھر یہیں سے شروع ہوتی ہے ایک نئی کہانی جس میں دیکھنے والوں کو ہر طرف انتقام اور دھوکہ نظر آئے گا۔

فلم کی ابتداء سے لے کر اختتام تک زیادہ تر مناظر گاڑی میں عکس بند کیے گئے ہیں (فوٹو: کارما انسٹاگرام)

فلم میں سارے کردار کسی نہ کسی طرح ایک دوسرے کو دھوکہ دیتے ہیں۔ سب کا کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے لیکن یہاں کمال فلم کے ہدایتکار کا ہے انہوں نے فلم کے مناظر کو اس انداز سے ترتیب دیا ہے کہ اختتام تک دیکھنے والا تجسس میں مبتلا رہے کہ آخر کون کس کو دھوکہ دے رہا ہے لیکن انجام سب کا ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔
فلم میں استعمال کیا گیا ایک ڈائیلاگ ایسا ہے جو شاید پوری فلم پر بھاری نظر آتا ہے ’دھوکے کی سب سے تکلیف دہ بات یہ ہوتی ہے کہ یہ کبھی غیروں سے نہیں ہمیشہ اپنوں سے ملتا ہے۔‘
 لفظ کرما کو مکافات عمل کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جس پر بالی وڈ میں ایک فلم بھی بن چکی ہے یعنی اگر کوئی کسی کو دھوکہ دیتا ہے تو تقدیر پلٹ کر وار کرتی ہے یہاں بھی کچھ ایسا ہی لیکن اس فلم کا نام کرما کے بجائے 'کارما' رکھا گیا ہے شاید اس لیے کہ فلم زیادہ گاڑیوں میں عکس بند کی گئی ہے۔

فلم کا پلاٹ

 سسپنس اور تھرلر سے بھرپور اس فلم کی کہانی ایک بزنس مین کے اغوا کے گرد گھومتی ہے اس بزنس مین کا کردار اسامہ طاہر نے ادا کیا ہے جسے مغل دور کا ایک ورثہ حاصل کرنے کے لیے اغوا کیا جاتا ہے۔
اگرچہ ’کارما‘ کی کہانی شروع میں کافی آسان معلوم ہوتی ہے لیکن فلم کے چلتے چلتے کئی اور موڑ آتے رہتے ہیں جو فلم میں سسپنس کا تسلسل برقرار رکھتا ہے۔
 اس پلاٹ میں قتل، دھوکہ دہی، تشدد اور ایک بہت ہی سنسنی خیز کار ریس کو دکھایا گیا ہے۔

انسپریشن

کہا جا رہا تھا کہ یہ فلم ہالی وڈ کے معروف ہدایت کار کوانٹن ٹرانٹینو کی فلموں سے متاثر ہو کر بنائی گئی ہے اور فلم دیکھنے کے بعد یہی محسوس ہوتا ہے کہ جو کہا جا رہا تھا بالکل سچ ہے۔
اگر آپ کوانٹن ٹرانٹینو کی فلموں کا جائزہ لیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ ان کی فلموں میں گاڑیوں کو خاصی اہمیت دی جاتی ہے اور بڑے بڑے سینز انہی گاڑیوں میں عکس بند ہوتے ہیں۔ ایسا ہی فلم ’کارما‘ میں بھی دیکھنے کو ملا۔

 سسپنس اور تھرلر سے بھرپور اس فلم کی کہانی ایک بزنس مین کے اغوا کے گرد گھومتی ہے

فلم کی ابتداء سے لے کر اختتام تک رومانس سے لے کر ایکشن تک زیادہ تر مناظر گاڑی میں پیش کیے گئے شاید یہی وجہ ہے کہ فلم کم بجٹ میں تیار ہوگئی۔
فلم میں کار ریس کو کچھ اس انداز سے دکھایا گیا ہے کہ دیکھنے میں ایک لمحے کو ہالی وڈ کی فلم ’فاسٹ اینڈ فیوریس‘ ذہن میں آتی ہے۔
جبکہ فلم میں دکھائی جانے والی ریس کو ایک ایسے حقیقی ڈائیلاگ سے جوڑا گیا ہے جو کراچی میں اکثر سنائی دیتا ہے ’کراچی میں رولز کوئی فالو نہیں کرتا اس لئے یہاں کٹنگ سب سے اہم ہے۔
فلم ’کارما‘ میں خطرناک قسم کا تشدد دکھانے پر کوئی حیرانی نہیں کیونکہ کوانٹن ٹرانٹینو ہی کہا کرتے ہیں کہ ’تشدد ان چیزوں میں سے ایک ہے جسے دیکھنے میں سب سے زیادہ مزہ آتا ہے۔‘
فلم میں کراچی کی سڑکوں پر ہونے والے جرائم کو بھی دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ایک سین میں فلم کر مرکزی کردار ہارون کو ایک گینگ اس ہی کی گاڑی میں اغوا کرکے کراچی کی سڑکوں سے جب گزر رہا ہوتا ہے تو ایک لمحے کو ایسا لگتا ہے جیسے یہ فلم نہیں بلکہ حقیقت ہے کیونکہ ایسے جرائم کراچی میں ہونا ایک عام سی بات سمجھی جاتی ہے۔

فلم کے بہترین کردار

ساشا

 ساشا کا کردار ایک گینگسٹر کا ہے جو خود اپنا گینگ چلا رہی ہے لیکن وہ گینگسٹر بنی کیسے؟


ساشا کا کردار اداکارہ ژیالے سرحدی نے ادا کیا اور اس کردار سے پورا انصاف کرتی ہوئی دکھائی دیں (فوٹو: کارما انسٹاگرام)

بچپن میں اس نے ایک شخص کی آنکھوں کو کھانے والے کانٹے سے حملہ کر کے اس وقت زخمی کردیا تھا جب اس نے اس کے ساتھ بدفعلی کرنے کی کوشش کی تھی۔
ساشا کا کردار اداکارہ ژیالے سرحدی نے ادا کیا اور اس کردار سے پورا انصاف کرتی ہوئی دکھائی دیں۔
فلم کے ٹریلر لانچ کی تقریب میں انہوں نے کہا تھا کہ ’ہمارے یہاں صنف نازک کو صنف نازک ہی دکھایا جاتا ہے مگر فلم (کارما) میں اُسے کئی وجوہات کی بنا پر جلاد بنتا دکھایا گیا ہے۔‘

حشمت

حشمت اغوا کار گینگ کا اہم ممبر ہوتا ہے جو نفسیاتی اور جذبات سے پرے لیکن محبت کا طلبگار ہوتا ہے۔ یہ اپنے گینگ کے لیے مختلف ٹارگٹ لے کر آتا ہے اور دیکھا جائے تو حشمت کا کردار فلم کے تمام کرداروں سے جڑا ہے۔
یہ کردار اداکار پارس مسرور نے ادا کیا ہے اور خوب کیا کیونکہ پارس اس سے قبل دو پاکستانی فلموں کام کر چکے ہیں جس میں ان کا کردار انتہائی مختلف تھا لیکن گزشتہ برس نشر ہونے والا  'پہلی سی محبت 'میں ان کا کردار اسی طرح کے شخص کا ہوتا ہے جسے ایسا نفسیاتی دکھایا گیا تھا کہ اپنی بیوی پر بے پناہ شک کے باعث تشدد کرتا ہے لیکن اس سے محبت کا اظہار بھی کرتا ہے۔

میوزک

فلم کے ہدایتکار کاشان عدمانی خود میوزک پروڈیوسر بھی اس کے باوجود فلم میں بہت زیادہ گانوں کے بجائے بیک گراؤنڈ میوزک کو اہمیت دے کر ایک نئی تھیم متعارف کروانے کی کوشش کی گئی ہے۔
ایسا لگتا کاشان عدمانی نے میوزک سے متعلق اپنی تمام صلاحیتوں کو فلم میں استعمال کیا ہے شاید یہی وجہ ہے کہ فلم میں کوئی آئٹم نمبر شامل نہیں۔   
تھیم

’کارما‘ اس قسم کی فلم ہے جس کی پاکستانی سنیما کو اس وقت ضرورت ہے (فوٹو: کارما انسٹاگرام)

فلم میں زیادہ تر رات کے مناظر دکھائے گئے ہیں سوائے دو یا چار سین کے سارے مناظر ہی اندھیرے میں پیش کیے گئے ہیں جس سے ہم یہ کہتے سکتے ہیں کہ فلم کی تھیم 'ڈارک' ہے۔
اس کے علاوہ فلم میں زیادہ تر سرخ (لال) رنگ کا استعمال کیا گیا چاہے گاڑیوں کا رنگ یا کرداروں کے لباس ہوں زیادہ تر سرخ تھے جو فلم میں تشدد اور خون خرابے کی جھلک کی نشاندہی کرتے تھے۔

تنقیدی جائزہ

دنیا بھر میں بننے والی ہر فلموں میں جہاں کئی خوبیاں ہوتی ہیں وہیں بنانے والوں سے کچھ کچھ کمی رہ جاتی ہے۔
فلم میں کے لوپ ہولز (خامیوں) میں سب سے اہم ورثہ کا ذکر تھا جس کے لیے سارا گیم پلان بنایا جاتا ہے لیکن وہ ورثہ تھا کیا پیسے، سونا یا ہیرے؟ اس بات کی نہ وضاحت کی گئی نہ سمجھ آئی۔
ہارون اپنے والدین کی موت کا بدلہ لینے کے لیے ساشا کو مارنا چاہتا ہے لیکن اسے کیسے پتہ چلتا ہے کہ اس کے والدین کو ساشا نے قتل کیا؟ یہ بھی سمجھ سے باہر تھا۔
اغواکار گینگ میں شامل جمال کا کردار ادا کرنے والے عمر عالم اپنے کردار کو نبھانے میں ناکام نظر آئے۔

ریمارکس

’کارما‘ اس قسم کی فلم ہے جس کی پاکستانی سنیما کو اس وقت ضرورت ہے کیونکہ اپنی فلم انڈسٹری کو ہمیں مضبوط کرنے کے لیے روایتی مصالحے دار کمرشل فلموں سے ہٹ کر کچھ منفرد بنانے کی کوشش کرنی پڑے گی۔ 
ہو سکتا ہے کہ یہ کمرشل فلموں کی طرح بزنس نہ کر پائے لیکن ایک اچھی فلم کی پہچان یہی ہوتی ہے کہ روایتی فلموں سے ہٹ کر اس کے بارے میں بات کی جائے۔
ایسا ہم ماضی میں بھی دیکھ چکے ہیں ’کیک‘ اور ’لال کبوتر‘ جیسی فلموں بھلے بزنس کے ریکارڈ نہ توڑے ہوں لیکن ان فلموں کو عالمی طرح سراہا گیا۔

شیئر: