سنہ 2000 کے آخری دنوں کی بات ہے انڈین ریاست اترپردیش کے شہر پریاگراج (الہ آباد) سے ہندی اخبار سے وابستہ ایک صحافی دھیریندر سنگھ شہر سے گاؤں اپنے گھر جاتے ہوئے اچانک غائب ہو گیا۔
وہ دفتر کے ساتھیوں کو بتا کر گئے تھے کہ وہ اپنی حاملہ بیوی کی عیادت کر کے دو دنوں میں واپس آ جائیں گے لیکن جب وہ پریاگ راج سے نکلنے کے دو دن بعد بھی گاؤں نہیں پہنچے تو خاندان والوں اور دوستوں نے پولیس سے رابطہ کیا۔
یہاں سے شروع ہوئی ایک ایسی کہانی جو سننے میں تو شاید کوئی افسانہ لگے لیکن ہے سو فیصد حقیقت پر مبنی۔
مزید پڑھیں
-
جوگی: ’1984 میں فسادات نہیں سکھوں کا قتل عام ہوا تھا‘Node ID: 701816
-
عمر شریف، ’ان میں کچھ ایسا تھا جو ابھی تک چمک رہا ہے‘Node ID: 701841
اس کہانی پر نیٹ فلکس نے ایک انڈین پروڈکشن ہاؤس کے تعاون سے تین قسطوں پر مشتمل ایک ڈاکومینٹری سیریز ’دا انڈین پریڈیٹر: ڈائری آف آ کلر‘ بنائی ہے جس میں اناؤ جیل میں موجود قاتل سے بھی بات چیت کی گئی ہے۔
صحافی کی گمشدگی کی تحقیقات کرنے والے پولیس افسر دھیریندر کے موبائل فون کی مدد سے ایک ایسے نمبر تک پہنچ جاتے ہیں جو ضلع کونسل کی ایک منتخب خاتون رکن کا ہوتا ہے۔
جانچ پڑتال پر معلوم ہوتا ہے کہ دھیریندر سنگھ اور خاتون رکن کا تعلق ایک ہی گاؤں سے ہے اور خاتون کا شوہر راجہ کولندر بھی گمشدہ صحافی کو جانتا ہے۔
تحقیقات کے دوران معلوم ہوتا ہے کہ دھیریندر کا موبائل دراصل راجہ کولندر کی گاڑی میں موجود ہے۔ راجہ کولندر اور اس کا برادر نسبتی پولیس کی حراست میں قبول کر لیتے ہیں کہ انہوں نے ہی دھیریندر کو راجہ کولندر کو اپنے فارم پر قتل کیا اور اس کی لاش کے ٹکڑے کر کے تین مختلف مقامات پر پھینک دیے ہیں۔

راجہ کولندر کی ملکیت فارم پر جب پولیس پہنچتی ہے تو انہیں وہاں ایک تجوری میں ملتی ہے ایک سرخ ڈائری جس میں 14 واں نام دھیریندر کا ہوتا ہے۔ یہاں پولیس کے لیے یہ سوال اہمیت اختیار کر جاتا ہے کہ آخر یہ مزید 13 نام کن لوگوں کے ہیں۔
مزید آگے چل کر پولیس کو علم ہوتا ہے کہ قاتل کا نام راجہ کولندر تو ہے لیکن یہ اس کا اصلی نام نہیں۔ اس کا اصلی نام رام نرنجن ہے اور اس نے اپنا نام راجہ کولندر خود رکھا ہے۔
ڈاکومینٹری میں کئی حقیقی کرداروں سے بات کی گئی ہے جس میں راجہ کولندر کے بچے، دھیریندر کے بیٹے، کیس کے تفتیشی افسر شامل ہیں جبکہ کلینیکل سائیکالوجسٹ اور اینتھروپولوجسٹ سے بھی اس کیس سے متعلق سوال کیے گئے ہیں۔
ڈاکومینٹری میں دکھائے گئے کلینیکل سائیکالوجسٹ اور اینتھروپالوجسٹ اس بات پر متفق ہیں کہ رام نرنجن عرف راجہ کولندر دراصل ذہنی مرض کا شکار ایک ایسا شخص تھا جو ’تصوراتی دنیا‘ میں رہتا ہے اور خود کو راجہ سمجھتا ہے۔
رام نرنجن کا نام راجہ کولندر کیوں پڑا؟ اس کا تعلق کول قبیلے سے ہے جو کئی برسوں تک انڈین ریاستوں اتر پردیش اور مدھیا پردیش کے جنگلوں میں رہنے کے بعد اب شہری علاقوں کا رخ کر رہا ہے۔
شاید انڈین سماج میں کول قبیلے کو وہ مقام نہیں ملا جو رام نرنجن کے مطابق انہیں ملنا چاہیے تھا اسی لیے اس نے خود کو ’راجہ کولندر‘ کہنا شروع کر دیا۔
Murder, cannibalism and a family who believes he is innocent.
Is Raja Kolander the monster he is made out to be? Find out in Indian Predator: Diary of a Serial Killer, now streaming. pic.twitter.com/8leZs1UCRa
— Netflix India (@NetflixIndia) September 7, 2022
اس نے بیوی کا نام تبدیل کرکے پھولن دیوی رکھ دیا تھا اور اسے ضلع کونسل کا رکن بھی منتخب کروایا۔ خیال رہے پھولن دیوی اتر پردیش سے تعلق رکھنے والی ایک ڈکیت تھیں جو بعد میں انڈین لوک سبھا کی رکن بھی رہیں۔
جیل میں ڈاکومینٹری کے لیے دیے گئے ایک انٹرویو میں راجہ کولندر نے بتایا کہ وہ خود بھی 2001 میں لوک سبھا کا انتخاب لڑنا چاہتا تھا۔
رام نرنجن نے ان لوگوں کا قتل بھی شاید اسی لیے کیا کیونکہ وہ خود کو واقعی راجہ سمجھتا تھا اور دماغی طور پر خود کو منصف سمجھ بیٹھا تھا۔
اس شخص نے اپنے تین بچوں کے نام عدالت، جمانت (ضمانت) اور اندولن (بغاوت) رکھے ہوئے تھے۔
ڈاکومینٹری میں بتایا گیا ہے کہ اس نے اپنے ساتھ کام کرنے والے دو افراد کا بھی قتل کیا اور ان کے سر دھڑ سے الگ کیے اور ان کے دماغ نکالے اور ابال کر کھا گیا۔
راجہ کولندر پر آدم خور ہونے کا بھی الزام ہے لیکن آج تک یہ الزامات اس پر ثابت نہیں ہو سکے۔ دھیریندر سنگھ کے قتل پر اسے اور اس کے سالے کو سزا ہو گئی تھی لیکن اسے بھی اس نے عدالت میں چیلنج کر رکھا ہے۔
ڈاکومینٹری میں ایک بات جو راجہ کولندر کی وحشی ذہنیت کو واضح کرتی ہے وہ یہ ہے کہ اس نے معین نامی اپنے مسلمان دوست کو پیسوں کے معاملے پر قتل کیا اور اس کی لاش تالاب میں پھینک دی۔
