Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مہسا امینی کی ہلاکت: ایرانی صدر پر امریکہ میں مقدمہ

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کی غرض سے نیویارک میں ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
ایران میں درست طور پر حجاب نہ اوڑھنے پر پولیس حراست میں خاتون کی ہلاکت پر احتجاج کا سلسلہ جاری ہے جبکہ دوسری جانب امریکہ میں صدر ابراہیم رئیسی کے خلاف مقدمہ دائر کرانے کا اعلان کیا گیا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق رواں ہفتے نیویارک میں ہونے والے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے امریکہ پہنچنے والے ایرانی صدر کو شاید امید ہو کہ وہ کچھ روز اپنے عوام کے غیظ و غضب سے دور رہیں گے۔
تاہم ان کی حکومت سے اختلاف رکھنے والے ایرانیوں اور مغربی ممالک کے ایسے افراد نے ان کے خلاف مقدمہ درج کرانے کا اعلان کیا ہے جن کا دعوٰی ہے کہ انہیں ایران میں بدسلوکی کا نشانہ بنایا گیا اور یرغمال رکھا گیا۔
یہ مقدمہ انسانی حقوق کے کارکن شاہین میلانی رئیسی حکومت کے مبینہ مظالم کا شکار ہونے والے افراد کی جانب سے نیویارک کے جنوبی ضلعے میں درج کرائیں گے جس کو ایران کی نیشنل یونین فار ڈیموکریسی نامی تنظیم کی حمایت بھی حاصل ہے۔
مدعیوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے اذیت کے ایسے مراحل کو برداشت کیا جن کا حکم کُلی یا جزوی طور پر صدر رئیسی نے دیا تھا۔
نیشنل یونین فار ڈیموکریسی ایران کے پالیسی ڈائریکٹر کیمرون خانسرینیا نے منگل کو نیویارک میں پریس کانفرنس کے دوران مدعیوں کا تعارف کروایا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم یہاں آج اس بات کا اعلان کرنے آئے ہیں کہ ہم ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے خلاف مقدمہ درج کرانے جا رہے ہیں۔‘

ایران میں مہسا امینی نامی خاتون کی پولیس حراست میں ہلاکت کے خلاف وسیع پیمانے پر احتجاج ہو رہا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس کیس میں ایسے مزید مدعی بھی شامل ہو رہے ہیں جن کو اختلاف رائے پر ایران میں مسائل کا سامنا رہا اور مغربی ممالک کے وہ افراد بھی جن کو ایران میں قید رکھا گیا۔‘
خانسرینیا نے عرب کو بتایا  کہ ’رئیسی نیویارک میں موجود ہیں اور یہ اہم بات ہے کہ میڈیا ان کے مظالم کا شکار ہونے والے افراد کو بھی کوریج دے رہا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ یہ بات امریکہ کی عدلیہ کے ریکارڈ پر آئے کہ ہم ان متاثرین کے ساتھ کھڑے ہیں جو رئیسی پر مختلف مجرمانہ الزامات لگاتے ہیں، یہ کیس ایک نئی نطیر قائم کرنے کے حوالے سے اہم ہو گا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم مظالم کا شکار ہونے والے دوسرے ایرانیوں سے بھی کہتے ہیں کہ وہ بولیں کیونکہ ان کو ایرانی حکومت نے طویل عرصے تک خاموش رہنے پر مجبور کیا ہے، یہ اچھا موقع ہے ان کے لیے اور سچ سامنے لانے کے لیے۔‘
پریس کانفرنس میں چار متاثرین نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا جن  میں ایرانی شہری مہدی حجتی کے علاوہ آسٹریلوی  کائل مور گلبرٹ، بیلجین شہری حامد بابئی اور ایران سے تعلق رکھنے والے احمد باتیبی شامل تھے جن کو قیدوبند کی صعوبتوں کا سامنا رہا۔
یہ لوگ نوید محبی نامی صحافی کے ساتھ قید رہے جو دنیا کے کم عمر ترین صحافی تھے جن کو تہران میں قید کیا گیا تھا۔
اعلان میں زور دے کر کہا گیا ہے کہ یہ پورے ملک نہیں بلکہ براہ راست صدر ابراہیم رئیسی کی ذاتی حیثیت کے بارے میں ہے۔
اس موقع پر مورے گلبرٹ نے اپنے ساتھ ہونے والے ’بدسلوکی اور ذہنی و جسمانی اذیت‘ کا بھی تذکرہ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’جب رئیسی ایرانی عدلیہ کے سربراہ تھے اس وقت انہیں سزا سنائی گئی جبکہ اپیل نہیں کرنے دی گئی اور قید کر دیا گیا، میرے ساتھ ہونے والی ناانصافی اور بدسلوکی کے ذمہ دار وہی ہیں۔‘
اسی طرح بابئی کا کہنا تھا کہ ’قیدیوں کو پانی یا چائے تک پینے کو نہیں دی جاتی تھی، میں شدید ذہنی اذیت میں رہا۔‘
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کس طرح ان کے ساتھ قید افراد کو پکڑ کر پھانسی کے لیے لے جایا جاتا جس سے وہ اس خوف میں مبتلا رہتے کہ اگلی باری انہی کی ہو سکتی ہے۔

شیئر: