Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شام: تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے سے ہلاکتوں کی تعداد 89 ہو گئی

ہلاک ہونے والے زیادہ تر مسافروں کا تعلق شمالی لبنان سے ہے۔ (فوٹو: اے پی)
شام کے سرکاری میڈیا نے سنیچر کو کہا ہے کہ لبنان سے تارکین وطن کو لے جانے والی ایک کشتی کے شام کے ساحلی علاقے میں ڈوبنے کے بعد سے اب تک 89 لاشیں نکالی گئی ہیں۔ جبکہ لبنانی فوج نے کہا ہے کہ کہ اس نے مشرقی بحیرہ روم میں ہونے والے اس بدترین حادثے کے ذمہ دار ایک مشتبہ سمگلر کو گرفتار کر لیا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق شامی آبزرویٹری نے ہلاکتوں کی تعداد 88 بتائی ہے، جب کہ 50 مسافر ابھی تک لاپتہ ہیں۔
شام کے شہر طرطوس کے قریب جمعرات کو ڈوبنے والی کشتی پر تقریباً 150 افراد سوار تھے، جن میں زیادہ تر لبنانی اور شامی تھے۔
لبنان غیر قانونی نقل مکانی کا نقطہ آغاز بن گیا ہے، اس کے شہری شامی اور فلسطینی پناہ گزینوں میں شامل ہو کر اپنا وطن چھوڑنے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔

غیرقانونی ’موت کی یہ سواریاں‘ روزانہ لبنان کے شمالی ساحلی علاقے سے روانہ ہوتی ہیں۔ کچھ ہی اپنی منزل تک پہنچنے میں کامیاب ہوتے ہیں، کچھ کو جن ممالک کی سمندری حدود میں یہ کشتیاں الٹ جاتی ہیں، ان کے کوسٹ گارڈرز بچا لیتے ہیں، جبکہ باقی سب کو سمندر نگل جاتا ہے۔
تریپولی کے سابق ایم پی مصطفٰى علوش نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’لوگ مکمل طور پر ناامید ہو چکے ہیں کہ لبنان میں حالات ٹھیک ہوں گے اور مافیاز اس صورتحال کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ایسے غیر قانونی سفروں میں سے 95 فیصد افراد اپنی منزل تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، اور یہ (افراد) یورپ پہنچ کر اپنے رشتے داروں اور ساتھیوں کی اس طرح کا سفر کرنے کے لیے حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
مصطفٰى علوش نے الزام عائد کیا کہ ’لبنانی حکام جانتے ہیں کہ اس طرح کے سفر کا بندوبست کرنے والے سمگلرز کون ہیں لیکن انہیں بہت پیسہ ملتا ہے۔ سکیورٹی افسران کو ایسے سفر میں سہولت فراہم کرنے یا اس سے چشم پوشی کرنے کے پیسے ملتے ہیں۔‘

غیرقانونی ’موت کی یہ سواریاں‘ روزانہ لبنان کے شمالی ساحلی علاقے سے روانہ ہوتی ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ہلاک ہونے والے زیادہ تر مسافروں کا تعلق شمالی لبنان سے ہے، جن میں سے کچھ نهر البارد کیمپ کے فلسطینی مہاجر تھے لیکن زیادہ تر اللاذقية، حلب اور ادلب کے رہنے والے شامی تھے۔

شیئر: