’دل دہل گیا‘، مہسا امینی کی ہلاکت پر پاکستان کے سیاسی رہنماؤں کی مذمت
’دل دہل گیا‘، مہسا امینی کی ہلاکت پر پاکستان کے سیاسی رہنماؤں کی مذمت
اتوار 25 ستمبر 2022 8:58
رکن سندھ اسمبلی شرمیلا فاروقی نے کہا کہ ’ریاست کو خواتین کی آواز کو نہیں دبانا چاہیے‘ (فوٹو: انسٹاگرام)
پاکستان کی خواتین سیاسی رہنماؤں اور انسان حقوق کی کارکنوں نے ایران میں حجاب کے معاملے پر دوران حراست خاتون کو ’بہیمانہ‘ قرار دیتے ہوئے شدید الفاظ میں مذمت کی ہے اور شفاف تحقیقات اور خواتین کو مزید آزادی دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی وفاقی وزیر برائے تحفیف غربت شازیہ مری نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’جو کچھ بتایا جا رہا ہے اگر یہ درست ہے تو یہ بہت افسوسناک ہے یہ انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ انصاف کے ساتھ ایک کھلا کھلواڑ اور انتہائی قابل مذمت ہے، ہر ایک کے پاس اپنی پسند کا حق ہونا چاہیے۔‘
سندھ اسمبلی کی رکن شرمیلا فاروقی نے عرب نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’اس سے دل دہل کر رہ گیا کہ کہ کیسے مہسا امینی کو درست طور پر حجاب نہ اوڑھنے پر قانون نافذ کرنے والوں نے ہی بہیمانہ طریقے سے قتل کر دیا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ریاست کو خواتین کی آواز کو نہیں دبانا چاہیے، خواتین کو خاموش کرانے کے بجائے مزید بااختیار بنایا جائے۔‘
سابق سینیٹر سحر کامران کا کہنا تھا کہ ’ایران کو یہ یقینی بنانا چاہیے کہ چند لوگ قانون اور اسلام کا نام خراب نہ کریں جبکہ واقعے کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے۔‘
ان کے مطابق ’انصاف کو یقینی بنانے کی ذمہ داری ایرانی حکام پر عائد ہوتی ہے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات رونما نہ ہوں۔‘
ویمن ایکشن فورم پاکستان کی رکن انیس ہارون نے عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ایران میں لازمی ڈریس کوڈ، الگ تھلگ رکھنے اور اخلاقی پولیس کے تشدد سے ایران میں خواتین کے حقوق کو نقصان پہنچا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اخلاقی پولیس کا کردار ہر صورت ختم ہونا چاہیے، ریاست کو حق نہیں ہے کہ وہ کسی کی نجی زندگی میں دخل اندازی کرے، ایران میں خواتین کو عام انسانوں کی طرح رہنے کی اجازت دی جائے اور انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کے مطابق زندگی گزارنے دی جائے۔‘
صنفی حقوق کے لیے ڈیجیٹل فاؤنڈیشن چلانے والی وکیل نگہت داد کا کہنا تھا کہ ’امینی کی موت نے مزاحمت کی چنگاری بھڑکا دی ہے، جس کو اب حکومت روک نہیں پائے گی۔‘
انہوں نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’ اس احتجاج کی حمایت مرد کر رہے ہیں جس سے یہ ظاہر ہے کہ بنیادی طور پر ایران کے عوام اپنی حکومت سے کیا چاہتے ہیں۔‘ ان کے مطابق ’خواتین اب خود فیصلہ کرنا ہے کہ حجاب اوڑھنا ہے یا نہیں۔‘
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’یہ بنیادی طور پر اپنی پسند ہے، جب ہم پاکستان میں یہ کہتی ہیں کہ میرا جسم میری مرضی تو اس کا اصل مطلب یہی ہے۔ ہم کو اپنے جسم پر اختیار ہونا چاہیے ناکہ کوئی اور اس پر اختیار رکھے۔‘
ڈانسر اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی کارکن شیما کرمانی نے ایرانی پولیس پر الزام لگایا کہ وہ عشروں سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کر رہی ہے۔
انسانی حقوق کی بے بہا خلاف ورزیوں کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ’ایرانی حکومت کی جانب سے انٹرنیٹ کی بندش اور عوام کو انتباہی پیغامات بدبودار ہیں اور مظاہرین کے خلاف وحشیانہ طاقت کے استعمال سے حکومت کے آمرانہ ادارے ظاہر ہوتے ہیں۔‘
ان کے بقول ’ہم ایران کی خواتین پر فخر کرتے ہیں کہ کمزور ہونے کے باوجود بھرپور مزاحمت کا مظاہر کر رہی ہیں۔‘
پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی ایکٹیوسٹ نایاب گوہر جان نے عرب نیوز کو بتایا کہ وقت آ گیا ہے کہ اب ایران میں خواتین کے حقوق پر سنجیدگی سے بات کی جائے۔